کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی پالیسی طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ملٹری لینڈ پر ہالز، سنیما اور سوسائٹیز بنا دیں، کیا یہ دفاع کیلئے ہے، سیکرٹری دفاع اسلام آباد میں بیٹھتے ہیں اور کراچی میں کرنل اور میجر کنگ بنے ہوئے ہیں
دفاعی مقاصد کیلئے ملنے والی زمین کی حیثیت کی تبدیلی کا کیا جواز ہے؟جبکہ ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیوں کے حوالے سے سیکرٹری دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان اس نقطہ پر متفق ہیں کہ کمرشل سرگرمیاں نہیں ہونی چاہییں۔ جس پر عدالت نے سیکرٹری دفاع کو یہی بیان تحریری جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط سے رپورٹ اور پالیسی پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ کے روبرو ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری صاحب یہ کیا ہورہا ہے سنیما اور رہائشی منصوبے چلا رہے ہیں آپ؟ سیکرٹری دفاغ نے کہا کہ مسلح افواج نے فیصلہ کیا ہے کہ کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جو کچھ ہوگیا ہے اس کا کیا ہوگا؟ یہ کیسے ٹھیک کرینگے ؟ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ جو کچھ ہو چکا اسے ٹھیک کرنے کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔
سپریم کورٹ کا ملٹری لینڈ پر جاری کمرشل سرگرمیوں سے متعلق پالیسی پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بتایا جائے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی کیا پالیسی ہے۔
آپ اسلام آباد میں بیٹھتے ہیں یہاں بیٹھے ایک کرنل اور میجر کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔ وہ اس علاقے کا کنگ بنا ہوا ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں کیا دفاعی مقاصد رہ گئے ہیں ؟ بعض اوقات تو لگتا ہے عدالتی حکم کا مذاق اڑا رہے ہیں عسکری فور دیکھیں بڑے بڑے اشتہار لگا دیئے۔
سارے عسکری ہاؤسز سوسائٹیز ہیں کیا کررہے ہیں یہ سب دفاعی مقاصد کیلئے استعمال ہورہی ہیں زمینیں ؟ امبر علی بھائی نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ مسلسل زمینوں کی حیثیت تبدیل کررہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سیکرٹری دفاع صاحب یہ سن لیں اور تحریری بیان دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے پالیسی بتائیں ہمیں اور بتائیں زمین کی حیثیت تبدیلی کا کیا جواز ہے۔
سیکرٹری دفاع نے سپریم کورٹ میں دیئے بیان میں کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان متفق ہیں کہ ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیاں نہیں ہونی چاہیں اور مجھے کہا گیا کہ عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ مزید کوئی کمرشل سرگرمی نہیں ہوگی۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو یہی بیان تحریری جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط سے رپورٹ اور پالیسی پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت نے سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔