زمین اپنی جز ترکیبی کے حوا لے سے اوپر سے نیچے تک ایک جیسی نہیں ہے اور نہ ہی نیچے سے اوپر تک یہ ایک ہی کرہ (Sphere) یا تہہ (Layer) پر مشتمل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ زمین کئی کروں پر مشتمل ہے پھر یہ کہ زمین کا سینٹر ’’مرکز‘‘ مائع تا نیم مائع حالت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اس اہم سائنسی حقیقت تک پہنچنے و الا ’’اٹلی‘‘ کا رہنے و الا دنیا کا ایک عظیم سائنس دان ’’حکیم میثاغورث‘‘ تھا ،جس نے پہلی مرتبہ سائنسی شاہوں اور شواہد سے اس پوشیدہ حقیقت کا اظہار اس وقت کیا جب اس نے اٹلی کی سرزمین پر نپلز (Naples) کے نزدیک ویسوئیس (Vesuvius) نامی آتش فشاں کے ذریعہ زمین کے اندر سے آنے والے محاصل (Products) کا بغور مشاہدہ اور تجزیہ کیا اور ساتھ ہی فلک سے گرنے والے ’’شہاب ثاقب‘‘ سے پیدا ہونے والے گڑھوں (erater) سے حاصل شدہ نمونوںکی جز ترکیبی کا درست کھوج لگایا ۔
اس کے اس نظریے کو فوری طور پر تو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب فکر و عمل نے ترقی کی منازل طے کیں تو یہ بات حتمی طور پر تسلیم کی جانے لگی کہ حقیقت میں زمین اندر اور باہر سے مختلف کروں پر مشتمل ہے جو طبعی ساخت اور کیمیائی جز ترکیبی کے اعتبار سے یکسر مختلف قدرتی تخلیقی ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ کئی کروں پر مشتمل ہے اور اس کا ’’مرکز‘‘ مائع تا نیم مائع حالت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے
زمین کے بیرونی کروں یعنی فضا اور فضا بسیط اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں سائنس اور اہل سائنس نے ان معلومات کو وسعت دینے کے لیے اپنی جستجو کا آغاز تو صنعتی انقلاب سے بہت پہلے کردیاتھا ،جس کی روشنی میں آج کے جدید سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کی چادر کو چاند اور مریخ کی سطح پر بھی پھیلا دیا ہے۔ پھر یہ کہ زمین کی سطح پر بھی کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں سائنس دانوں کے قدم براہ راست نہ پہنچے ہوں۔
ہاں البتہ زمین کے اندر عمیق گہرائی میں بنی نوع انسان کے قدم براہ راست نہ پہنچے ہیں اور نہ کبھی پہنچ سکتے ہیں ،جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےکہ زمین کا قطر تقریباً آٹھ ہزار میل ہے لیکن اب تک انسان نے زمین میں جو گہرے سوراخ یا برماکاری (Drilling) کی ہے۔ وہ تقریباً چار میل سے زیادہ گہرا نہیں ہے،وہ بھی اس اُمید پر کہ زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت مثلاً تیل و گیس اور دیگر قدرتی وسائل ہاتھ آسکے اور اس میں بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کےیہ قدرتی خزانے صرف اور صرف اسی گہرائی تک محدود ہے ورنہ اس کے نیچے اتھاہ گہرائی میں صرف آگ ہی آگ یا پھر گرم آبی محلول ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی سائنسی ادوار میں محققین نے بالواسطہ ذرائع اور مشاہدوں کے ذریعہ زمین کے اندر کی معلومات بڑی حد تک معلوم کرلی ہیں جسے جدید سائنسی علوم کی دریافت نے دوچند کردیا۔ اس سلسلے میں ابتدائی معلومات یہ سامنے آئی کہ زمین کے اندر کم گہرائی میں جو کرہ موجود ہے وہ کم کثیف ہے۔ اس کی کثافت 3.00معلوم کی گئی ہے، کیوں کہ اس میں ہلکے کیمیائی عناصر موجود ہوتے ہیں ۔مثلاً پوٹاشیم، سوڈیم اور سیلیکا جب کہ گہرائی میں بتدریج اضافے کے ساتھ ثقیل مادّوں کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے، جس کی کثافت تقریباً 5.5 معلوم کی گئی ہے ،کیوں کہ اس میں بھاری عناصر مثلاً لوہا، میگنیشم، نکل کی مقدر زیادہ ہوتی ہے۔
زمین کے اندرونی ماحول سے منسلک ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ تقریباً ہر 50 فیٹ نیچے جانے پر ایک مربع ڈگری سینٹی گریڈ حرارت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ زمین کے اندر اپنی تخلیقی حرارت ہوتی ہے، جس میں تابکار عناصر (Radiation Element) کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ یہ ارضی تپش حرارت کہلاتی ہیں ،جس کی وجہ سےزمین کا سینٹر پگھلتا رہتا ہے۔ اس کی تصدیق اس وقت ہوجاتی ہے جب گرم ارضی محلول آگ اور خاک کی شکل میں ’’عمل آتش گیری‘‘ کے ذریعہ سطًح زمین پر کھلی فضا میں اُبل پڑتا ہے۔
زمین کے اندر بڑھتی ہوئی حرارت کی شدت کا اندازہ اس وقت بھی لگایا جاسکتا ہے جب کسی زیر زمین کوئلہ یا کسی معدن کی کان (mine) میں جانے کا اتفاق ہو۔ اس قسم کے کالی یا سرنگ میں اوپر کے مقابلے میں اندرونی جانب ماحول انتہائی گرم ہوتا ہے اور تپش اس قدر شدید نوعیت کی ہوتی ہے کہ کان کنوں کو کان کنی کے دوران بڑی دقت پیش آتی ہے۔ زمین کی اندرونی کیفیت کی صدات کے حوالے سے ’’شہاب ثاقب‘‘ کو بھی اہمیت حاصل ہے ،کیوں کہ مختلف قسم کے شہابیوں کے نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہےکہ اس قسم کے شہابیوں کا قلب (سینٹر) ثقیل عناصر مثلاً لوہا، نکل وغیرہ پر مشتمل پایا گیا ہے۔
زمین بھی چونکہ شہاب ثاقب کی طرح ایک فلکی جسم ہے، اسی و جہ سے اس کا بھی مرکزہ ثقیل دھاتوں پر مشتمل پایا گیا ہے۔ چناں چہ جب بنی نوع انسان سائنسی شعور کی جدید منزل پر پہنچ گیا اور یہ صلاحیت حاصل کرلی کہ زمین کے اندر کی قدیم اعدادوشمار اور تحقیق کو زیادہ بہتر، جامع اور جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرسکتے تو پھر دنیا نے یہ دیکھا کہ سائنسی اُفق پر ایک منفرد ’’علم و ہنر‘‘ ابھر کر سامنے آیا ہے علم زلزلہ یا زلزلیات(Seismology) کے نام سے روشناس کیا گیا۔ اس علم میں زلزلےاور اس سے پیدا ہونے والی لہروں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ زلزلے کے دوران عام طور پر کئی طرح کی لہریں پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے دو اہم ہیں یعنی ابتدائی لہریں Primary waves اور ثانوی لہریں Secondary wavesجو زلزلہ آنے کے فوراً بعد زمین کے اندر پھیل جاتی ہے۔
حتٰی کہ انتہائی نچلے حصے بھی ان کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔یہی لہریں زمین کے اوپر آکر اندر بالاواسطہ معلومات فراہم کرتی ہیں۔دور حاضر میں اس مقصدکے لئے مصنوعی زلزلی لہریں پیدا کی جارہی ہیں ،تاکہ حسب منشا معلومات حاصل کی جاسکے۔ ایسا کرنے کے لئے زمین کی سطح پر 5 سے 8 فیٹ گہرائی کے بعد دھماکہ خیز مادّہ مثلا ’’ڈائینامائٹ‘‘ کے ذریعہ مصنوعی زلزلی لہریں پیدا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسے ’’زلزلی طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مصنوعی پیدا کردہ لہریں (ابتدائی و ثانوی) زمین کو عمیق گہرائی میں سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ابتدائی لہریں ثانوی لہروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں اور ٹھوس مائع اور گیس جیسے واسطوں سے گزرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جب کہ ثانوی لہریں ایسا نہیں کرسکتیں یہ صرف ٹھوس اجسام سے گزرنے کی اہل ہوتی ہیں۔
دونوں قسم کی لہروں کی رفتار زمین کی گہرائی کےساتھ مختلف ہوتی ہیں یہ جب زمین کے اندر مختلف واسطوں کے چٹانی کروں سے گزرتی ہیں تو کثافت کی بنیاد پر ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب زمین کی سطح پر واپس آتی ہیں تو انعکاس (Reflection) اور انعطاف (Refraction) کے ماتحت ہوتی ہیں جنہیں ایک حساس آلہ کے ذریعہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس آلہ کو زلزلہ نگار (seismograph) اور اس پر نمودار ہونے والے پروفائل کو زلزلہ نوشت (seismogram) کہتے ہیں ،اس آلہ پر نقش ہونے والی معلومات سے ابتدائی اور ثانوی لہروں کی رفتار اور رویوں سے اس بات کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ ان لہروں نے نقطہ آغاز سے اب تک کتنا فاصلہ طے کیا ہے، کتنی گہرائی سے یہ لہریں منعکس ہوئیں اور ان کا وضع تبدیل ہوا اور کتنے وقت میں ان لہروں نے اپنا سفر طے کیا۔
چناں چہ جہد مسلسل سے علم زلزلہ (زلزلیات) کو اس وقت بھرپور توجہ حاصل ہوئی جب 1910ءمیں جرمن سائنس دان (ویگنر) کا پیش کردہ مفروضہ زیر زمین براعظمی سرکائو (Continental drift) کو 1960ء کے عشرے میں زلزلیاتی اعداد وشمارکی بنیاد پر اسے حقیقت سے بہت قریب کردیا اور پھر 1970ء میں اس انقلاب آفرین مفروضے کو ’’تھیوری‘‘ کے درجے پر فائز کرکے اس کا نام ’’متحرک پلیٹس‘‘ یا ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ رکھ دیا گیا ،کیوں کہ اس سائنسی انکشاف سے زمین کے اندر موجود چٹانی کروں کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات واضح ہونے لگی تھی جہاں تک زمین کے اندر موجود طبعی کروں یا تہوں کا تعلق ہے تو یہ معلومات اب مستندہوگئی ہے کہ زمین کی اندرونی ساخت کا وہ حصہ جو سطح زمین سے 100؍ کلومیٹر کی گہرائی تک موجود ہے وہ ٹھوس سخت اور شکستہ ہونے کے ساتھ کم کثافت کی حامل معادنی گروہ پر مشتمل ہیں۔
تحقیق کے بعد اس حصے کو ’’کرہ حجر‘‘ یا ’’لیتھوسفیر‘‘ کا نام دیا۔ سائنسی شعور میں وسعت اور جدید وسائل کی دستیابی سے اس کے اس حصے کے بارے میں ناقابل یقین انکشافات سامنے آئے گئے۔ مثلاً کرہ حجر کا بالائی حصہ پلیٹ سے مشابہت رکھنے و الے ٹکڑوں (Plate like segment) پر مشتمل ہیں گویا ’’کرہ حجر‘‘ کوئی مسلم چٹانی اکائی نہیں ہے۔ بلکہ تقریباً 20 مختلف جسامت اور ساخت کی کرہ حجری پلیٹوں یا ٹکڑوں کی نشاندہی کی گئی ہیں جو حرکت بھی کرتی ہیں ،اس میں نمایاں نام کوکس، بحرالکاہل، نازکا، فلپائن، عربین اور انڈین پلیٹس شامل ہیں۔
کرہ حجر یا لیتھوسفیرک پلیٹ کے نیچے موجود ایک دوسرے کرہ پر تیر رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کے برف یا ’’آئس برگ‘‘ کے کئی کئی ٹن کے تودے سمندرمیں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کی وجہ پانی کے مقابلے میں برف کی کم کثافت ہے بالکل یہی اصول یہاں پر بھی کارفرما ہے۔ کرہ حجر کے نیچے جو کرہ موجود ہے ،اس کی کثافت بلند ہے یہی وجہ ہے کہ کرہ حجر نیچے جانے کے بجائے ۔اس کے اوپر تیر رہا ہے۔ دوسری مثال براعظم اینٹارکٹیکا ہے جو برف کا براعظم ہے۔ اس کے 100 فیٹ نیچے پانی موجود ہے لیکن کثافت کے اصول کے تحت برف کا براعظم دھنس نہیں رہا ہے بلکہ پانی پر تیر رہا ہے یہ، کرہ زمین کے اندر کرہ حجر کے نیچے 350کلومیٹرکی گہرائی میں موجود ہے جہاں پر بلند تپش کی وجہ سے چٹانی جسم بلاسٹک خصوصیت (ٹافی یا ڈامر) کے حامل ہوتے ہیں۔ زمین کا یہ کرہ ’’ایتھینوسفیر‘‘ یا کرہ سیال (Asthenosphere) کہلاتا ہے ۔
لیتھوسفیر کا زیرین حصہ اور ایتھینوسفیر کا بالائی حصہ ایک دوسرے سے الگ خصوصیت کےساتھ منسلک ہے۔ اندرون زمین کروں کی یہ حدبندی ’’موہو غیر مطابقت‘‘ (Moho-unconfironity) کہلاتی ہے۔ اس کے ٹھیک نیچے ایتھنوسفیر کا زون موجود ہے جہاں ٹھوس کرہ حجر کا دوبارہ پگھلائو ہوتا رہتا ہے ،کیوںکہ یہاں پر درجۂ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اس وجہ سے لیتھوسفیر کا وہ حصہ جوا س زون سے ٹکراتا ہے وہ پگھل کر رقیق (میگما) میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔یہ رقیق ارضی سیال (Geofluids) کہلاتا ہے ،جو سطح زمین پر آکر ٹھوس ہوجاتا ہے۔
جدید ارضی علم ’’زلزلیات‘‘ کے ماہرین ’’ارضی طبیعیات‘‘ کے حوالے سے یہ میکنزم اس طرح ہوتا ہے کہ جب دو لیتھوسفیر پلیٹ حرکت کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں تو ان کے درمیان تصادم ہوتا ہے اور ساتھ ہی کم کثیف پلیٹ بلند کثافت والی پلیٹ کے نیچے چلی جاتی ہے اور آخر کار حرکت ہوئی اور نیچے جاتی ہوئی پلیٹ وہ حصہ جو ایتھینوسفیر سے جاملتا ہے پگھل کر مائع میں تبدیل ہوکر زبردست قوت کے تحت سطح زمین پر اُبل پڑتا ہے اور زمین کی مسلسل تشکیل نو کے ساتھ زلزلے، آتش فشاں اور گراں قدر معاونی ذخائر کو زمین کے اندر سے سطح زمین جمع کرتی رہتی ہیں۔
مثلاً سمندری زلزلہ (یعنی سونامی2004) اور فلپائن میں موجود 7000 جزیرے اسی قسم کے زمین کے اندر پیدا ہونے والی حرکات ظاہر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں جزیرہ ’’سپرس‘‘ میں موجود کاپر سلفائیڈ کچ دھات، جنوبی امریکا کے پہاڑی سلسلوں میں ٹن اور تانبہ کے ذخائر زیگراس کے پہاڑی سلسلہ (عراق، پاکستان، ایران) میں موجود کئی گراں قدر معاون کا اندرون زمین سے مسلح زمین پر آکر منجمد اور ٹھوس ہوگئی ہیں، پھر یہ کہ کرہ سیال یعنی ’ایتھینوسفیر‘‘ کے نیچے 350 کلومیٹر سے 2883 کلومیٹر گہرائی کے درمیان موجود چٹانی کرہ میسوزاسفیر کہلاتا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ’’کرہ سیال‘‘ کے اوپر موجود کرہ (ایتھنوسفیر) شدید تپش کی وجہ سے کمزور اور شکستہ خصوصیت کا حامل ہوتا ہے جب کہ اس کے نیچے موجود میسوزاسفیر کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اوپر موجود نیم پگھلی ہوئی ’’ایتھینوسفیر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور سخت ہوتا ہے حالاں کہ اس کے اطراف حرارت کی مقدار اوپر سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے زمین کا یہ کرہ گرم آگ کے گولے کی طرح ٹھوس حالت میں ہوتا ہے اور اوپر موجود کروں کے پلیٹوں کی حرکات کے دوران تپشی توانائی مہیا کرتا ہے، جس کی وجہ سےزلزلے، آتش فشاں اور آتش فشانی پہاڑیسلسلے وجود میں آتے ہیں ،جس کے ساتھ ہی زمین کے اندر سے بے شمار کیمیائی مرکب چٹانی کروں کی شکل میں مرکوز ہوجاتے ہیں۔
اس بنیادپر کیمیائی کروں (تہوں) کے تین مراحل سامنے آتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں زمین کا بیرونی حصہ ہے ،جس پہ ہم رہتے ہیں اور اپنی زراعت وتعمیرات کو فروغ دیتے ہیں’’اسے زمین کی کھال‘‘ یعنی قشرارض‘‘ کہتے ہیں۔ زمین کے اس حصے کی موٹائی براعظم میں35تا40کلو میٹراوربحراعظم میں 5کلو میٹر کی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو عالمی پیمانے پر(جدید زلزلیاتی لہروں کے اطلاق کے بعد) تسلیم کیا گیا ہے کہ قشرارض کی مجموعی گہرائی 35 کلومیٹر ہے ،جس میں سے30کلو میٹر کا بالائی حصہ کم کثافت کے حامل کیمیائی مرکبات ( سیلکان ڈائی آکسائیڈ، پوٹا شیم اورسوڈیم) پر مشتمل ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر براعظم چٹان گرینائیٹ کہاجاتا ہے جب کہ 5کلو میٹر سمندری فرش مختلف قسم کی بھاری کثافت والی چٹانوں پر مشتمل ہوتا ہے جسے اوفی لائیٹ(Ophiolite)کہاجاتا ہے۔ جدید ارضی علوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ’’ اوفی لائیٹ‘‘ جہاں کہیں بھی موجود ہوتا ہے وہ اس سائنسی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ زبردست قوت کی وجہ سے قدیم سمندری فرش کا ٹکڑا سطح زمین پر آگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ کی چوٹی پر ایسی انواع اور چٹانی ٹکڑے حاصل ہوئے ہیں جن کی بودوباش اور تخلیق سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سمندر کی گہرائی اور سمندری فرش کا حصہ تھے جواب کئی ہزار فٹ کی بلندی پر دستیاب ہیں۔جب کہ دوسرے مرحلے میں زمین کا وہ کرہ دستیاب ہوا ہے جسے’’ مینٹل‘‘(mantle)زمین کی یہ اندورنی چٹانی کرہ قشرکے نیچے صفر سے2900کلو میٹر یا35سے2865
کلومیٹر کی گہرائی تک موجود ہے ۔ان دونوں تہہ یعنی کرسٹ اور مینٹل کے درمیان کرہ ہوئی (mohosphere)ہے جوان دونوں کروں کے درمیان حجریاتی (Petrological)فرق کو ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی پورے ’’ مینٹل‘‘ کو بالائی اور زیریں ’’مینٹل‘‘ میں تقسیم کرتا ہے۔بالائی مینٹل‘‘35سے1000کلو میٹر اور زیریں مینٹل1000سے2900کلو میٹر کی گہرائی تک ایسی چٹائی اجزا پر مشتمل پایا گیا ہے جو میگنشیم اور لوہا کا ایک گراں قدر آمیزہ ہے، جس نے پوری اندورنی کروّں کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے۔یہاں پردائرلی حرارتی چکر کے بہاؤکا عمل بھی ہوتا رہتا ہے جو دراصل وہ خارج شدہ حرکی توانائی ہے جو’’ میسو اسفیر‘‘ میں موجود تابکار عناصر کی حرارت کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے موجود’’ اسفیر‘‘ میں جنبش پیدا کرتی ہے جوزلزے اور دوسری زمینی حرکات کا باعث بنتی ہیں۔
اس کرہ یعنی’’مینٹل‘‘ کے نیچے 2900کلو میٹر گہرائی سے6370کلومیٹر گہرائی تک ایک اور کرہ موجود ہے جسے کرہ ثقیلہ یا کرہ قلب(Core)کہتے ہیں۔یہ حصہ بالائی قلب(upper Core)اور زیریں قلب (lower core)پر مشتمل ہوتا ہے۔ بالائی قلب مائع حالت میں جبکہ زیریں قلب ٹھوس حالت میں موجود ہے ۔حالاںکہ یہاں پر درجۂ حرارت آٹھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ درجہ ٔحرارت سورج کی سطح کے درجۂ حرارت سے کم ہے لیکن زیادہ کم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر زمین بالائی کروں کا بے پناہ بوجھ پڑرہا ہے جو اسے ٹھوس حالت میں قائم رکھے ہوئے ہے لیکن ایسا ٹھوس نہیں جیسی چٹانیں ہوتی ہے بلکہ گرم سرخ لوہے کی طرح ٹھوس۔ دونوں صورتوں میں یہ اجزا ترکیبی کی مناسبت سے لوہا اور نکل کا آمیزہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بلند کثافت کے معادنی سالمات بھی موجودہوتے ہیں۔
چناں چہ زمین کے اندر کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ زمین کے اندر موجود کروں نے ہماری زمین کو ایک متوازن اکائی بخشی ہے، جس نے عظیم پہاڑی سلسلوں کو بلند وبالا کردیا ہے ،کیوںکہ بنیادی طور پر ان میں کم کثافت کی حامل چٹانی ومعدنی اجزا شامل ہوتی ہیں۔ جب کہ سمندر کو طاس (نشیب) بنادیا ہے ،کیوںکہ سمندری فرش میں بھاری کثافت والے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح سمندر اور عظیم پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک قدرتی توازن برقرار ہے جسے ’’ آئسوسٹی(lsostasy) صرف یہی نہیں بلکہ زمین پر موجود گراں قدر معدنی ذخائر مثلاً ہائیڈروکاربن کی دریافت کا براہ راست تعلق بھی زمین کی اندورنی کروں سے ہے۔
مثلاً جب ‘‘لیتھو سفیر‘‘ پلیٹ حرکت کرتی ہیں(کرسٹ کا زیریں حصہ اور مینٹل کا بالائی حصہ) تو وہ نیچے موجود’’ ایتمنوسفیر‘‘ میں داخل ہوکر دوبارہ پگھل جاتی ہیں پھر یہ پگھلا ہوا چٹائی محلول زمین کی اندورنی ساخت سے باہر نکل کر بے شمار قدرتی معدنی ذخائر کی تخلیق کرتا ہے۔ اسی دوران زمین کے اندورنی حصوں میں حرکات اور پگھلاؤ کے عمل سے حرارت کی مناسب مقدار پیدا ہوتی ہیں جوزمین کے اندر کی ساخت میں موجود’‘تہہ دارچٹان‘‘(layered Rocks)مخصوص حصوں میں موجود نامیاتی موادکے لئے ہلکے آنچ کاکام سرانجام دیتی ہے یہ وہی قدرتی عمل ہے، جس سے دنیا کی بڑی بڑی تیل وگیس کی فیلڈ موجود حالت میں دریافت ہوئی ہیں ،جس میں’’ زلزلیاتی ‘‘ معلومات کو بڑی فوقیت حاصل ہورہی ہے۔