لاہور(نمائندہ جنگ) تیسری عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے منتظمین نے کہا ہے کہکانفرنس کے فارمیٹ کے مطابق پہلے سیشن سے چیف جسٹس، آخری سےاپوزیشن رہنماء خطاب کرتا ہے سابق جنرل پرویز مشرف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو عدالتوں نے مفرورقراردیا لیکن انکے انٹرویوز نشر ہوئے،نواز شریف پر اعتراض کیوں کیا جارہا ہے ،منتظمین نے ایک بیان میں کہا کہ حالیہ کانفرنس نے کافی بحث و مباحثے کو جنم دیا اور حکمران جماعت پی ٹی آئی نےاس پر انگلیاں اٹھائیں، کانفرنس کے ایجنڈے میں انسانی حقوق کے ان موضوعات کا احاطہ کیا گیا جو پاکستان میں چیلنج شدہ ہیں، اختتامی سیشن میں کانفرنس کے مستقل فارمیٹ کے مطابق حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے خطاب کیا، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پہلی کانفرنس 2018 کی اختتامی تقاریر کی تھیں، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2019 میں کانفرنس کی اختتامی تقریر کی ،عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتی ہے کہ کانفرنس نے کسی بھی جانبدارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھایا، حکمران پارٹی کے کئی سرکردہ ارکان کو مدعو کیا گیا جن میں سے اکثر نے تینوں کانفرنسوں میں خطاب کیا، قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو بھی کانفرنس میں خطاب کے لیے مدعو نہیں کیا گیا۔ نواز شریف اس سے قبل بھی اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں ، حکومت نے اسحاق ڈار اور سابق جنرل مشرف کے انٹرویوز نشر کرنے کی اجازت دی ہے حالانکہ دونوں کو پاکستان میں عدالتوں نے مفرور قرار دیا ہے، اس کے برعکس قانونی حلقوں کے ایک بڑے طبقے کا یہ خیال ہے کہ محمد نواز شریف کی سزا سیاسی تحرک کا نتیجہ ہے، کانفرنس میں شخصیات پر اعتراضات کرکے حکمران اداروں، معیشت کی حالت اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو درپیش حقیقی خطرے سے توجہ ہٹا رہے ہیں، ہم اعادہ کرتے ہیں یہ کانفرنس سیاسی میدان میں متنوع آوازوں کے لیے ایک کھلا اور غیر سنسر زدہ پلیٹ فارم رہے گا، تقریب کو "سیاسی" قرار دینا گمراہ کن ہے ،اس سال بھی کانفرنس کا فارمیٹ ویسا ہی رہا جہاں افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی چیف جسٹس آف پاکستان تھے جن کے ساتھ دیگر جج بھی موجود تھے، حقیقی جمہوریت وہ ہے جہاں حکمران جماعت اپوزیشن جماعتوں کو اپنا بیانیہ بیان کرنے کی آزادی فراہم کرتی ہے، عاصمہ جہانگیر کانفرنس نے خود کو پاکستان کی سب سے بڑی انسانی حقوق اور قانونی کانفرنس کے طور پر برقرار رکھا ہے اور یہ سال بھی اس سے مختلف نہیں تھا اس وجہ سے اسے اکثر پیپلز اسمبلی کہا جاتا ہے۔