پاکستان کا ٹیلی ویژن ڈراما دُنیا میں اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ اس میں نئے باصلاحیت اور باکمال فن کاروں کو بھی موقع دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ڈراما ختم ہوتا ہے ، تو اس کی کام یابی کے بعد نئے باصلاحیت فن کار سامنے آتے ہیں، جب کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ایسا نہیں کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے فلم انڈسٹری پروان نہیں چڑھ رہی ہے۔ فلم ساز، ٹیلی ویژن کے مقبول چہروں کو فلموں میں کاسٹ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے فلم پر ڈرامے کا رنگ غالب رہتا ہے۔
کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ فلم کے آڈیشن کیے جا رہے ہیں۔ نئے چہروں کو مواقع مل رہے ہوں، ہمیں سمجھنا ہو گا کہ فلم اور ٹی وی دو الگ الگ میڈیم ہیں۔ گزشتہ دنوں جیو سے دو تین سپرہٹ ڈراما سیریلز اختتام پذیر ہوئی، ان میں ’’رنگ محل‘‘ نے کام یابی کے مختلف رنگ بکھیرے ۔ ’’رنگ محل‘‘ نے ایسا رنگ جمایا کر باقی دوسرے ڈراموں کے رنگ پھیکے کر دیے۔ اس ڈرامے سے سب سے زیادہ مقبولیت ’’مہ پارہ‘‘ کے کردار کو ملی۔ مہ پارہ کے کردار میں حقیقت کے رنگ بھرے نئی نسل کی کام یاب اداکارہ سحر خان نے’’ مہ پارہ‘‘ کے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی، جس کی وجہ سے سحرخان کو صفِ اول کے فن کاروں میں شامل کیا جانے لگے۔
23مئی کو اپنی سال گرہ منانے والی باصلاحیت فن کارہ سحر خان نے نہایت قلیل عرصے میں ڈراما انڈسٹری میں منفرد اور الگ پہچان بنائی ۔ انہوں نے تین برس قبل ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ ان کے مقبول ڈراموں میں امام ضامن، وَفا کر چلے، مشک، میں اگر چپ ہوں، رَنگ محل اور حال ہی میں شروع ہونے والا ڈراما فاسق شامل ہے، جش میں فاطمہ کے کردار میں پسند کیا جارہا ہے۔ ’’فاسق‘‘ میں وہ اداکار عدیل چوہدری کے مدِ مقابل کام کر رہی ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ سحرہ خان نے چند ٹیلی فلموں میں بھی اداکاری کی ہے۔ ’’تیری میری کہانی‘‘ اور ’’بلما‘‘ اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ دنوں ہم ٹیلی نگری کی نئی شہزادی سحر خان سے بات چیت کی جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
س: کیا آپ بچپن ہی سے کیا اداکارہ ہی بننا چاہتی تھیں؟
سحر خان: مجھے اداکاری کا کوئی ایسا خاص شوق نہیں تھا، کبھی اداکارہ بننا نہیں چاہتی تھی، مجھے موسیقی کے میدان میں آواز کا جادو جگانے کا شوق تھا، میں گلوکارہ بننا چاہتی تھی اور اداکارہ بن گئی۔ میرا یقین ہے کہ جو آپ کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے، وہی ملتا ہے، میری قسمت میں ایکٹنگ کرنا لکھا تھا، لہٰذا میں اداکارہ بن گئی۔
اب تو گلوکاری کا خیال میں نے اپنے دل و دماغ سے نکال دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمر کے ساتھ آپ کے خواب تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ شروع میں ایڈووکیٹ بننا چاہتی تھی، پھر پاکستان میں میڈیا کا انقلاب آیا تو، میرے ذہن میں نیوز کاسٹر بننے کا خیال آیا۔ پھراداکاری کے لیے آڈیشن دیا، تو منتخب ہو گئی، اس کے بعد گھر والوں کو بڑی مشکل سے منایا اور پھر کیا ہوا، سب کے سامنے ہے۔
س : آپ کی پرفارمنس میں جادوگری کہاں سے آئی، اداکاری میں کس فن کار سے زیادہ متاثر ہیں؟
سحر خان: میری اداکاری میں کوئی جادو گری نہیں ہے، یہ تو مجھے پسند کرنے والے ناظرین کا پیار ہے۔ میں شوبزنس میں عمدہ کام کرنے والوں کو آئیڈیلائز کرتی ہوں۔ تمام سینئرز کو ایڈمائر کرتی ہوں، لیکن میں کسی فن کار کر کی نقل ہر گز نہیں کرتی۔ بہت کم ڈرامے اور فلمیں دیکھتی ہوں، مجھے فلموں کے بارےمیں بھی زیادہ نہیں معلوم ہوتا۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین اور مجھ میں بہت فاصلہ تھا۔ جب شوبزنس میں کام کرنا شروع کیا، تو پھر سوچا حقیقت کے قریب کام کرنا ہے۔ نیچرلی کام کرنا ہے۔
اگر کوئی سین ہے، اس میں نیچرلی غصہ آئے تو کیا کرنا ہے، آہستہ آہستہ مجھے مختلف نوعیت کے کردار ملنا شروع ہوئے۔ کردار کواچھی طرح پڑھتی ہے اور پھر اس کے بارے میں نیچرلی سوچتی ہوں۔ فن کاروں میں صبا قمر کی اداکاری مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ اس لیے میں انہیں بے حد پسند کرتی ہوں۔ خوش گوار حیرت کی بات بتائوں کہ میں آج تک صبا قمر سے ملی نہیں ہوں۔ بس بہ طور اداکارہ انہیں چاہتی ہوں۔ عمران اشرف بھی کمال کے اداکار ہیں، انہوں نے ’’بھولے‘‘ کے کردار کو امر کر دیا۔ اور بھی فن کار ہیں، سب اچھے اچھا کام کر رہے ہیں، ڈراما انڈسٹری میں ایک سے بڑھ کر ایک فن کار کام کر رہے ہیں۔
س: شوبزنس کی وجہ سے آپ کی پڑھائی کتنی متاثر ہوئی؟
سحر خان: اداکاری کی وجہ سے سب سے زیادہ میری تعلیم متاثر ہوئی ہے، جب شوبزنس میں آئی تھی، تو میں نے اپنا انٹرمیڈیٹ مکمل نہیں کیا تھا، اسے بھی بعد میں مکمل کیا، اس کے بعد گریجویشن شروع کیا، تو ایک سال تک پڑھائی سے دور رہی، تو میں نے اپنے سمسٹر رکوادیا تھا۔ اب دوبارہ گریجویش مکمل کر رہی ہوں۔ میرا سیکنڈ ایئر چل رہا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تعلیم سب سے ضروری ہے، تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔
س: شوبزنس میں قدم رکھا، تو گھر سے کتنی سپورٹ ملی؟
سحرخان: میری تمام کامیابیاں میرے والدین کی دعائوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی سپورٹ کی وجہ سے میں نے اپنے شوبزنس کے تین سالوں میں اعتماد کے ساتھ کام کیا۔ میرے گھر والوں کو سب سے زیادہ جیو کے ڈرامے ’’رنگ محل‘‘ کا کردار ’’مہ پارہ‘‘ ہی پسند آیا، اوراتنا پسند آیا کہ اس ڈرامے کو وہ اسے یوٹیوب پر بار بار دیکھتے ہیں۔ جب گھر سے اتنا شان دار رسپانس ملتا ہے، تو باہر کے لوگ بھی پسند کرنے لگتے ہیں۔ میرے پہلی ترجیح میرے گھر والے ہیں۔ اس ڈرامے کے بعد تو میں اپنے گھر میں اسٹار بن گئی ہوں۔ میری بہن ڈرامے نہیں دیکھتی۔ اس نے بھی اس ڈرامےکی تمام اقساط دیکھی ہیں۔
س: قلیل عرصے میں اتنی مقبولیت کا کریڈٹ کیسے دیتی ہیں، کبھی سوچا تھا کہ ڈراما ’’رنگ محل‘‘ آپ کی زندگی بدل دے گا؟
سحرخان: سب سے پہلے جب یہ پروجیکٹ مجھے ملا تو میں بہت خوش تھی۔ مجھے ایسا لگا، جیسے ’’مہ پارہ‘‘ کا کردار میرے لیے ہی لکھا گیا ہے، یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی فن کار اسکرپٹ دیکھ کر خوش ہوتا ہے، تو پھر اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جان لڑا دیتا ہے۔ میں نے ڈرامے کا پورا اسکرپٹ پڑھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی بہت جان دار کہانی ہے۔ اسکرپٹ پڑھتے ہوئے کئی مرتبہ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں جذباتی سین پڑھتے پڑھتے رُک جاتی تھی۔ فن کار کے لیے اسکرپٹ اچھا ہوتا ہے، تو فن کار اس میں جان ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
مہ پارہ کے کردار کی زندہ دلی اور چلبلا پن کی طرح میں عام زندگی میں تھوڑی بہت ایسی ہی ہوں۔ بے وقوف اور شرارتی، ملی جلی سی کیفیت میں رہتی ہوں۔ جب ’’مہ پارہ‘‘ کا کردار آگے جاکر سنجیدہ ہوا، تو وہ بھی میری زندگی کے بہت قریب تھا۔ جب اداکار نیچرل پرفارمنس دیتا ہے ، تو ناظرین کے دل جیت لیتا ہے۔ میں نے ’’رَنگ محل‘‘ کی کام یابی کے لیے دُعائیں بہت کروائی تھیں۔ جب دیکھتی تھی کہ امی نماز پڑھنے جا رہی ہیں، تو ان سے درخواست کرتی تھی کہ میرے پروجیکٹ کی کام یابی کے لیے دُعا کریں، میرا ڈراما رنگ محل سپرہٹ ہو جائے۔ میں نے خود بھی دِن رات دعائیں کیں۔ نانی سے بھی دُعائیں کروائیں۔
دُعائوں کے ساتھ مہ پارہ کے کردار کے لیے میں نے بہت محنت کی۔ اس دوران میری صحت کے ساتھ بھی مسائل پیدا ہوئے تھے۔ پھر بھی پروجیکٹ کو مکمل کروایا ، خصوصی وقت دیا تھا اس کے لیے، اس کے علاوہ ٹیم بہت اچھی تھی۔ سارے فن کار بہت اچھے تھے۔ تمام فن کاروں کی ایک دوسرے کے ساتھ کیمسٹری بہت اچھی تھی۔
کہانی کا موضوع بہت اچھا تھا۔ مہ پارہ کا کردار مجھے دل سے بہت پسند تھا۔ میں نے جب کہانی پڑھی تو مجھے میرے دل کے قریب لگا، یہ حقیقت ہے کہ ہم ہر پروجیکٹ دل سے کرتے ہیں، لیکن کوئی ایسا ہوتا ہے، جو دل میں اتر جاتا ہے، تمام ناظرین اور مداحوں کی شکر گزار ہوں، انہیں یہ میرا ادا کیا ہوا کردار ’’مہ پارہ ‘‘ بہت اچھا لگا۔
س: شوبزنس کی چمکتی دُنیا میں آپ کے اور کیا خواب ہیں؟
سحر خان: ہر پل اپنے رَب کا شکر ادا کرتی ہوں۔ ہر کام اس لیے عمدہ کرتے ہیں تاکہ اس کا اچھا رسپانس ملے۔ مداحوں کی جانب سے پسندیدگی اور پیار ملے۔ میرا چھوٹا سا ڈریم ہے کہ میں جو بھی کام کروں، اسے پزیرائی حاصل ہو۔ کوئی بھی میرے کرداروں کی وجہ سے مجھ سے ناراض نہ ہو۔
س: ڈراما انڈسٹری میں کس فن کارہ سے آپ کا زیادہ مقابلہ ہے؟
سحر خان: آج کل ڈرامے میں اداکاری کا مقابلہ سخت ہے، لیکن میں نے کسی فن کار کو ذہن پر سوار نہیں کیا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کوئی اداکارہ بہت اچھا کام کر رہی ہیں، تو میں اس سے زیادہ اچھا کام کروں۔ میں توصرف اتنا سوچتی ہوں ہر فن کار اپنے طور پر اچھا اور بہترین کام کرتا ہے۔ کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
یہ میری سوچ ہے، ہو سکتا ہے کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ شوبزنس کی دُنیا میں قسمت کا بہت عمل دخل ہے۔ میرا رَب جس کو چاہتا ہے عزت اور شہرت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ ہمارے ناظرین کو کب کیا پسند آجائے ، یہ کوئی فن کار نہیں جانتا۔
س:موسیقی میں کس طرح کے گیت سنتی ہیں؟
سحر خان: مجھے ہر طرح کی موسیقی پسند ہے۔ پاکستانی گلوکاروں کو شوق سے سُنتی ہوں۔ مجھے رومانٹک اور سنجیدہ گیت اچھے لگتے ہیں۔ جس طرح کا موڈ ہو، ویسے ہی گانے اچھے لگتے ہیں۔
س: کبھی کسی ڈرامے کے لیے OST گانے کی پیش کش ہوئی تو آپ کا رسپانس کیا ہو گا؟
سحر خان: موسیقی سے میرا پہلا پیار ہے۔ اگر کسی ڈراما پروڈیوسرنے پیش کش کی، تو ضرور سوچوں گی۔ موسیقی اور گانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے اس کام کا ماہر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ OST کی وجہ سے ڈراموں میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اب تو ڈراموں کے OST ماضی کی فلمی گیتوں کی طرح مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
س: ڈراموں کی شوٹ کے دوران پیش آنے والے دل چسپ واقعات کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سحر خان: بہت سارے واقعات ہیں، جو سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ہم ’’رنگ محل‘‘ کا ایک سین کر رہے تھے اور میں نے کہا کہ میرا سین پہلے کر لو۔اس دوران میرے لیے چائے لا کر رکھی گئی، کپ کافی گرم تھا اور وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور چائے میری ٹانگ پر گر گئی، جس کی وجہ مجھے شوٹنگ سے دو دن کی چھٹی لینا پڑی۔
اسی طرح جیو کے ڈرامے’’فاسق‘‘ کی ریکارڈنگ کے دوران ایک سین میں عدیل چوہدری ایک گھر کے باہر بائیک پر بیٹھے میرا انتظار کررہے ہوتے ہیں، جیسے ہی میں بائیک پر بیٹھتی ہوں،عدیل چوہدری جب بائیک کو اسٹارٹ کرتے ہیں، تو بائیک ان کے کنٹرول سے باہر ہوکر دیوار سے جالگتی ہے۔ میں جلدی سے بائیک سے اتر جاتی ہوں، اس طرح ہم دونوں حادثے سے بچ گئے۔