ایک صحافی نے سابق صدر پاکستان اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے مریم نواز شریف کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں آصف علی زرداری یہ کہہ کر چلتے دکھائی دیے کہ ’’مریم میری بیٹیوں جیسی ہیں، ان پر کوئی بات نہیں کروں گا‘‘۔
یہ واقعہ مجھے 90کی دہائی میں لے گیا جب مریم نواز شریف کے والد نے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی کردار کشی میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔ یہ واقعہ مجھے موجودہ وزیراعظم کا محاسبہ کرنے پر مجبور کرنے لگا کہ جنہوں نے خواتین کے حقوق پر ایسے بیانات دیے جو کسی مہذب ملک میں دینا شاید استعفیٰ کی بنیادی وجہ بن جائے۔
پاکستانی سیاست میں اصول پرستی کا نہ ہونا اسے اتنا گدلا کر گیا ہے کہ نوجوان نسل سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایسے میں آصف علی زرداری کا بیان ہوا کا ایک تازہ جھونکا محسوس ہوا لیکن یہ پہلی بار نہیں کہ آصف علی زرداری نے موقع پرستی کے بجائے اصول پرستی کا علم تھاما ہو، صدر بننے کے بعد جس طرح اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے انہوں نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا اور اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئے، شاید اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو 18ویں ترمیم جیسا پہاڑ کھڑا ہونا محال تھا۔
میں آصف علی زرداری کی مداح سرائی کا قائل نہیں مگر گزشتہ 32سال کے دوران ریاست نے جو آصف علی زرداری کے ساتھ کیا اس پر سوال تو بنتا ہے؟ تین نسلوں کی آصف علی زرداری کے خلاف ذہن سازی کا حصہ بننے والا میڈیا بھی کبھی تو سوچنے پر مجبور ہوگا کہ ریاست اور متعدد حکومتوں نے جتنا سرمایہ اور طاقت آصف علی زرداری کو کرپٹ ثابت کرنے پر لگایا
اگر اس کا نصف حصہ بھی تعلیم پر خرچ ہوتا تو آج ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح 100فیصد ہوتی۔
32سال گزر گئے آصف علی زرداری کو ’’کرپٹ‘‘ بتاتے ہوئے مگر 12سال جیل میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر تشدد کرنے والے نے اپنی ماں کے ساتھ زرداری صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر معافی مانگی اور دنیا نے دیکھا۔
ریاست کوئی تو جرم ثابت کر دیتی، ریاست طاقتور تھی یا آصف علی زرداری؟ ریاست کے پاس نیب، پولیس، ایف آئی آئے نہ جانے کیا کیا نہ تھا اور نہ جانے آصف علی زرداری کے خلاف کیا کیا استعمال نہ ہوا۔
آصف علی زرداری کی عمر 66 سال ہے اور جوانی سے بڑھاپے تک شہید ذوالفقار علی بھٹو کا داماد 35 سال عدالتوں کے چکر اور جیل یاترا میں گزار چکا ہے.
شہید بینظیر بھٹو سے شادی کے بعد مسلسل عتاب کا شکار ہے، کردار کشی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی، حاکم علی زرداری بھی سوچتا ہوگا کہ اس کے بیٹے کو کس چیز کی کمی تھی، 60کی دہائی میں بمبینو سینما سمیت کئی اہم عمارتوں اور ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک ہوتے ہوئے جس طرح کی کردار کشی کا زرداری خاندان کو سامنا رہا، اس پر کئی سوال جنم لیتے ہیں۔
یاد رہے ساٹھ کی دہائی میں حاکم علی زرداری کی حیثیت یہ تھی کہ اگر کوئی بھی بین الاقوامی وفد دارالحکومت کراچی میں آتا تو وفد میں شامل لوگوں کی حاکم علی زرداری سے ملاقات و ضیافت کی خواہش ضرور ہوتی تھی۔
اس بات کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ پرویز مشرف دور میں جب سرحد پر حالات ٹھیک نہ تھے اور دونوں ملکوں نے حالات کو بہتری کی طرف لانے کیلئے ایک دوسرے کے ہاں وفود بھیجے تو انڈیا سے آئے ایل کے ایڈوانی حاکم علی زرداری کے مہمان بنے، جن کے گھر پر دونوں ملکوں کو قریب لانے کیلئے مذاکرات کا بھی اہتمام ہوا۔ آصف علی زرداری کے خاندان کو نشانہ بنانے والے شاید انکے ننھیال سے بھی ناواقف ہیں۔
آصف علی زرداری کی والدہ نامور مسلم دانشور مولانا خان بہادر حسن علی آفندی کی پوتی تھیں، اس طرح مولانا آفندی آصف علی زرداری کے پڑنانا تھے۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی رہے۔ 1934ءسے 1938تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے اور سندھ مدرسۃ الاسلام کے بانی تھے۔
آصف علی زرداری کو ہر حکومت قیدی بناتی ہے اور پھر کچھ سال بعد اس قید کی معافی بھی مانگی جاتی ہے، آصف علی زرداری سے معافیوں کا سلسلہ طویل ہے جو غلام اسحاق خان سے شروع ہوتا ہے کہ جس نے آصف علی زرداری کو گرفتار کروایا اور پھر کچھ سال بعد اسی آصف علی ذرداری سے مرحوم اسحاق خان وفاقی وزیر کا حلف لیتے نظر آئے اور اپنے لگائے گئے الزامات پر معافی بھی مانگی۔
یہی سیف الرحمٰن اور شریف برادران نے کیا، پھر ہم نے یہ بھی سنا کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں آصف علی زرداری سے جنرل شجاع پاشا نے بھی معافی مانگی اور عمران خان تو ویسے بھی یوٹرنز کے بارے میں مشہور ہیں، وہ دن دور نہیں جب وہ آصف علی زرداری پر لگائے گئے الزامات پر یوٹرن لیتے دکھائی دیں گے۔
آصف علی زرداری پر 90کی دہائی سے آج تک 2درجن سے زائد کیس بنائے جا چکے ہیں، 90کی دہائی میں بننے والے کیسز میں وہ باعزت بری ہوئے۔
ایک شخص جس کو 30سال کرپشن کے جھوٹے کیسز میں بدنام کیا اور 11سال سیاسی قیدی بنا کر رکھا گیا لیکن مجال ہے اس کے منہ سے ریاستی اداروں کے خلاف ایک لفظ بھی نکلا، اس نے پرویز مشرف سے استعفیٰ لینے کیلئے نہ ہڑتال کی کال دی، نہ لانگ مارچ کیا، نہ کوئی خون خرابہ ہوا، نہ کہیں کنٹینر لگائے، نہ ہی کوئی روڈ بلاک کیا۔
آصف علی زرداری کی قیادت میں سی پیک اور اٹھارہویں ترمیم سمیت جو کام ہوئے وہ آنے والی نسلوں کیلئے جو ثمرات لیکر آئینگے ہمیں انکا اندازہ نہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم اب سیاسی کردار کشی کے دروازے بند کرکے عوامی رہنماؤں کے عالمی رابطوں اور تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔