زمرد خان ایک دلیر آدمی ہیں اور جو کچھ انہوں نے جمعرات کی شب اسلام آباد میں کیا، اس پرہماری قوم انہیں تمغہٴ حسن کارکردگی بھی دے سکتی ہے مگر ہماری ناقص رائے میں تو خان صاحب اور صرف اللہ کا شکر ہی ادا کرتے رہنا چاہئے کہ آپ کی حماقت سے کوئی قیمتی جان ضائع نہیں ہوئی ورنہ آپ نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
29 جنوری 2013ء کی بات ہے کہ ایک امریکی شہری نے سکول بس سے ایک پانچ سالہ بچہ اغواء کرلیا۔ بس ڈرائیور نے بھی زمرد خان صاحب کے کلّے پر عمل کرتے ہوئے 65 سالہ مغوی کو جھپٹ کر قابو میں لانے کی حماقت کی اور اس کوشش میں بابا جی کے فائر کا نشانہ بن گیا۔ ڈرائیور کی المناک موت کے باوجود امریکی پولیس اور ایف بی آئی نے بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور پورے چھ دن تک 65 سالہ ملزم کے ساتھ گفت و شنید کرتی رہی اور بالآخر اسے اسقدر تھکا دیا کہ بیچارے کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور یوں اس معصوم کی جان بچ گئی۔
اسی طرح کی داستان حماقت کا ایک اور باب 1991ء میں امریکی ریاست یوٹام کی ایک احمق نرس نے رقم کیا۔ یہ قصہ یوں ہے کہ رچرڈ نامی ایک نیم پاگل شخص نے ایک عدد شاٹ گن، ایک پستول اور ایک ڈاینامائٹ کے ساتھ لیس ہو کر دو نرسوں، ایک مریض، ایک تیمار دار اور دو نوزائیدہ بچوں کو یرغمال بنا کر پورا ہسپتال سر پر اٹھا لیا۔ مذکورہ نرس صاحبہ کو جوش چڑھا اور انہوں نے ایک نعرہٴ مستانہ بلند کرتے ہوئے رچرڈ سے شاٹ گن چھین کر ایک طرف کو دوڑ لگا دی۔ اس بیوقوف کو یہ معلوم تھا کہ ملزم کے پاس پستول اور بم بھی موجود ہیں۔ بہرحال، کمر میں گولی لگنے سے بیچاری موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔ پورے 18 گھنٹے مذاکرات ہوئے اور بالآخر ملزم نے خود کو حکام کے حوالے کردیا اور یوں قیمتی جانیں بچ گئیں۔
اپنے شیر ببر زمرد خان کی طرف آنے سے پہلے دو چار باتیں اسلام آباد پولیس بارے بھی کرتے چلیں۔ اس نے پہلی کوتاہی یہ کی کہ ملزم کو اس قدر حساس علاقہ میں گھسنے دیا۔ دوسری جہالت یہ ہوئی کہ دنیا بھر میں رائج اور مستعمل ٹیسر راؤنڈ (TASER ROUND) جو کہ عام بارہ بور بندوق میں کارتوس کی جگہ چلائے جاسکتے ہیں اور جن کی قیمت فی راؤنڈ تقریباً سو ڈالر ہے، اس پولیس کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ یہ راؤنڈ سو سے تین سو فٹ کے فاصلے سے چلایا جاسکتا ہے جس کے لگنے سے ملزم مرتا نہیں بلکہ ایک منٹ کے لیے نیم بیہوش ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے کی آخری حماقت اسلام آباد پولیس سے یہ ہوئی کہ اپنے زمرد خان صاحب جیسا سکڈ میزائیل پولیس کا حصار توڑ کر نہایت اطمینان کے ساتھ ملزم تک جا پہنچا اور اس کے ساتھ فن پہلوانی کا نہایت مخولیہ اور بھونڈا مظاہرہ کرنے لگا۔
زمرد خان صاحب کو پہلا مشورہ تو ہم یہ دینا چاہیں گے کہ انگریزی فلمیں دیکھنا فی الفور بند کردیں۔ دوسرا یہ کہ جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے یوگا وغیرہ کی مشق کیا کریں۔ آخری اور سب سے اہم نصیحت یہ ہے کہ فوری طور پر اپنے وزن میں کم از کم 30 کلو کی کمی کریں اور جسمانی فٹنس کے لیے قریبی جم سے استفادہ کریں کیونکہ جو حرکت کرتے آپ کل پائے گئے اور جس کے نتیجے میں آپ جس بری طرح سڑک پر گرے اور لڑکھتے چلے گئے، اس کو دیکھ کر عبرت تو جو ہوئی سو ہوئی، بہت سوں کو باقاعدہ شرمندگی بھی ہوئی ہے۔
خان صاحب کی اس جرات رندانہ کی بھینٹ دونوں معصوم بچے بھی چڑھ سکتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ لاتعداد شہری بھی ملزم کی گولیوں کا نشانہ بن سکتے تھے۔ خود زمرد خان کی اپنی زندگی چند لمحوں کے لیے اس نشئی دہشت گرد کے رحم و کرم پر تھی۔ پولیس نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں پانچ گھنٹے انتظار کیا وہاں دو گھنٹے مزید بھی گزارے جاسکتے تھے۔ ملزم کے چہرے سے ٹپکنے والی بوکھلاہٹ سے صاف پتہ چلتا تھا کہ نہ صرف تھک چکا ہے بلکہ بیچارے کا نشہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔ اسے تو تھوڑی سی چرس دے کر بھی قابو کیا جاسکتا تھا۔
آخری گزارش یہ ہے کہ ملزم ایک طویل مدت دبئی میں گزار کر آیا ہے جہاں نہ صرف سی آئی اے بلکہ موساد اور راء کے نیٹ ورک موجود ہیں۔ اگر اس بات کا امکان محض ایک فیصد بھی ہوتا کہ ملک سکندر نامی یہ شخص کسی نہ کسی حوالے سے کسی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا تھا مگر زمرد خان صاحب کے بے وقت جوش و جذبے کے نتیجے میں چار پانچ لاشیں گرانے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہلاک ہو جاتا تو اس سازش سے پردہ کون اٹھاتا۔ یاد رہے کہ ملزم کی گفتگو سے کسی پراسرار کردار کا پتہ بھی چلتا ہے جو اس کا بیٹا بتایا جاتا ہے جو کسی عرب عورت میں سے ہے اور آجکل وہاں کسی جیل میں سڑ رہا ہے۔
زمرد خان کے جوش اور جذبے کی قدر تو خیر ہم بھی کرتے ہیں مگر زرداری صاحب کو چاہئے کہ انہیں تمغہٴ حسن کارکردگی نہیں تمغہٴ حسن بے وقوفی سے سرفراز فرمائیں تاکہ آئندہ اس قسم کی جرات کا مظاہرہ کرنے سے پہلے اس قسم کے سورما کم از کم ایک بار سوچیں ضرور کہ کیا کرنے جارہے ہیں۔