گزشتہ 5 سال میں معاشی بد انتظامیوں اور سابقہ حکومت کی خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا بلکہ اس سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت معیشت، پلاننگ کمیشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسے اہم ادارے بھی کمزور ہوئے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران معاشی پیداوار میں کمی رہی اور اس کی سالانہ اوسط 3 فیصد تک رہ گئی جس کی وجہ سے ہر سال خاطر خواہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال جی ڈی پی میں بجٹ خسارہ 7 فیصد سے تجاوز کر کے8.8 تک پہنچ گیا۔ بھاری مالی خسارے کی موجودگی اور شرح مبادلہ کی قیمت میں کمی کی وجہ سے سرکاری قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اسی طرح سابقہ دور حکومت میں مہنگائی میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو اس وقت معاشی پیداوار میں کمی، بھاری بجٹ خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سرکاری قرضوں میں غیر معمولی اضافے کا سامنا ہے۔ ان تمام چیلنجوں سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟ معیشت کی بہتری کے لئے پاکستان نے بروقت آئی ایم ایف سے مدد مانگ لی ہے۔
آئی ایم ایف نے معیشت کے کلاں کی روایتی پالیسیوں کے مطابق معاشی استحکام اور بجٹ خسارے میں کمی پر زور دیا ہے تاکہ قرضوں کو کم اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ آئی ایم ایف کے نقطہ نظر سے پاکستان کو چاہئے کہ وہ معاشی استحکام پر زور دے تاکہ معاشی پیداوار اور روزگار میں اضافہ کیا جاسکے۔ متعدد یورپی ممالک کے حالیہ تجربات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے معیشت کے کلاں کی روایتی پالیسیوں جن میں معاشی استحکام کو ترجیح دی جاتی ہے اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے ۔ معیشت کے استحکام کیلئے تیزی سے مالی ایڈجسٹمنٹ کے باعث اس کا اثر سماج اور شہریوں پر پڑا اسی وجہ سے یورپین ممالک میں معاشی بحالی تعطل کا شکار ہوئی۔ اس طرح کی پیش رفت نے عالمی رہنماؤں کو پہلے استحکام اور بعد میں معاشی پیداوار میں اضافے کی پالیسی پر دوبارہ نظر ثانی پر مجبور کیا۔ ماسکو میں ہونیوالی جی۔20 ممالک کی حالیہ کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اپنی معیشتوں کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق وسط مدتی میں بجٹ کا انضمام ضروری ہے تاہم مختصر مدت میں معاشی ترقی لازمی ہے۔ عالمی رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ معیشت کے کلاں کی پالیسوں کو صرف بجٹ خسارے پر کمی تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ معاشی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں میں استحکام اور مہنگائی پر قابو بھی اس کی ترجیحات میں ہونا چاہئے۔ اس طرح کی معیشت کے کلاں کی پالیسیوں سے کسی صورت بھی مالی بے ضابطگیوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بجائے اس سے ایک طرف تو مقامی وسائل کو بروئے کار لانے اور دوسری طرف اخراجات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب عالمی رہنماؤں کی جانب سے تجویز کردہ نئی مالیاتی پالسیاں ابھی تک آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی ہیں اسی لئے آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی حکام کو ملکی معیشت کی بحالی کیلئے معیشت کے کلاں کی روایتی پالیسیوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔معیشت کے کلاں کے تعمیری اہداف حاصل کرنے کیلئے میں کس طرح مالی پالیسی مرتب کروں گا؟ تعمیری پس منظر میں مالیاتی پالیسی میں معاشی استحکام، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کیلئے ایک بہترین آلہ کار ثابت ہوسکتا ہے۔ خطیر مالی خسارے، بڑھتے ہوئے قرضوں اور مہنگائی جس کا سامنا پاکستان کو کئی دہائیوں سے ہے کے پیش نظر یہاں مالیاتی پالیسی کا دارو مدار استحکام پر ہوگا۔ اسی طرح معاشی ترقی کیلئے اور غربت کو کم کرنا مالیاتی پالیسی کے تعمیری کردار میں انہتائی اہم ہوگا۔ تعمیری مقاصد کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ مالی خسارہ کہاں اور کیسے صرف کیا جارہا ہے۔ کیا یہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہورہا ہے تاکہ انسانی سرمائے میں اضافہ ہوسکے جو پیداوار اور اسی طرح معاشی ترقی کا باعث بنے؟ یا اسے ملکی فزیکل انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور مضبوط کرنے پر خرچ کیا جارہا ہے جو کہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور معاشی ترقی کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرے گا؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو سرکاری خسارہ اگرچہ وہ مختصر مدت میں بڑھے گا تاہم وہ قابل قبول ہوگا۔ جب تک کہ مالی خسارے کو قرض بڑھانے کی استعداد کیلئے استعمال کیا جاتا رہے گا خطیر اور بڑھتا ہوا سرکاری قرض ملکی معیشت پر بوجھ ثابت نہیں ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری قرض مختصر مدت میں معاشی ترقی میں مثبت طور پر کردار ادا نہیں کرسکے گا، معاشی ترقی میں اسکے اثرات دیر سے نظر آئیں گے اور اس دوران مختصر مدت میں جی ڈی پی میں قرض کا تناسب بڑھ بھی سکتا ہے۔ ایسی مالیاتی پالیسی جس میں ان تمام کاوشوں کو نظر انداز کیا گیا ہو میں معاشی استحکام حاصل کرنے میں ناکامی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم طویل مدت میں اس سے معاشی ترقی اور غربت میں کمی لاسکتی ہے۔ پاکستان کی طرح ترقی کرتی ہوئے کئی ممالک مالیاتی پالیسی کو معاشی استحکام کے مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس کے لئے اہم شعبوں میں سرکاری اخراجات میں کمی کر تے ہیں جس کی وجہ سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچتا ہے۔ تاریخی طور پر سرکاری اخراجات نے ایشیائی خطے میں تعمیری تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایشیائی خطے میں کامیاب معیشتیں انفرااسٹرکچر میں بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، جن میں اہم صنعتیں جیسا کہ اسٹیل، مشین ٹولز اور بنیادی کیمیکل اور اسی طرح تعلیم اور صحت شامل ہیں۔ یہ تمام سرمایہ کاری معاشی ترقی، غربت میں کمی اور انسانی سرمایہ میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اسی تناظر میں سرکاری اخراجات کی ساخت ،مجموعی مالی خساروں اور قرضوں کے بجائے، معاشی ترقی کیلئے اہم ہے۔ سرکای قرض کے مسائل نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو نقصان پہنچایا ہے، جن میں پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں اور موجودہ دور میں بھی اگرچہ پاکستان میں معیشت کی شرح بڑھی ہے تاہم ٹیکس محصولات میں اضافے میں ناکامی کی وجہ سے ابتدائی طور پر ان مسائل میں اضافہ ہوا۔ ترقی پذیر ممالک جو جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح بڑھانے میں ناکام رہے اس کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا جس سے ادائیگیوں کے توازن میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ ان ممالک کو معاشی استحکام کی روایتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا پڑا۔ اس طرح کی روایتی سوچ سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑا جیسا کہ حالیہ برسوں میں یورپی ممالک میں ہوا ہے۔ اسی وجہ سے عالمی رہنما اس بات پر مجبور ہوئے کہ معاشی استحکام اور معیشت کے کلاں کی پالیسیوں کے تعمیری کرداروں کے اندر توازن پیدا کرنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اگر چہ مجموعی خسارہ یا سرکاری قرض معیشت کے کلاں میں استحکام پر انحصار کرتا ہے تاہم تعمیری مقصد میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خسارے کی رقم کہاں صرف کی جارہی ہے۔ اس تناظر میں اخراجات کے معیار کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ دریں اثناء جی ڈی پی میں ٹیکس کی کم شرح ترقی پذیر ممالک کیلئے مالیاتی پالیسی کو تعمیری مقصد کیلئے استعمال کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسی طرح ٹیکس کی بنیادوں کو مزید وسعت دیکر، ٹیکس کی ساخت ، ٹیکس انتظامیہ کی استعداد کو بہتر بناکر اور ٹیکس کے قواعد وضوابط کو مزید سخت کر کے مالیاتی پالیسی کے تعمیری کرداروں کیلئے درکار فنڈ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ کیا پاکستان اس مالیاتی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے رضامند ہے؟