• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ واقعہ 1997ء کا ہے ۔ میںتب گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے شعبہ اردو میں لیکچرار تھا۔ انٹرمیڈیٹ سال اول کی نئی کلاس مجھے ملی۔ میں جانتا تھا کہ اگر استاد پہلے ہی دن نصابی کتاب پڑھانا شروع کردے تو طلبہ اچھا محسوس نہیں کرتے اس لئے کلاس میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے میں نے بچوں سے اپنا تعارف کروایا۔ اس کے بعد بچوں کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر بچہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا، اپنا نام بتاتا، اپنے والد گرامی کاتعارف کرواتا، اس اسکول کے بارے میں کچھ بتاتا جہاں سے وہ میٹرک کرکے آیا تھا۔ مجھ پر کھلا کہ زیادہ بچے اساتذہ، سرکاری افسروں، کاروباری لوگوں، زمینداروں اور نجی اداروں کے ملازمین کے تھے۔ دراصل یہی تنوع ہے جو ہر سال آنے والی نئی کلاس کو ہر استاد کے لئے قابل قبول بناتا ہے۔رنگ رنگ کے یہ پھول ہر استاد کو اچھے لگتے ہیں۔ ہر انسانی معاشرہ بھی اسی تنوع کا ایک نمونہ ہوتا ہے۔ تعارف کراتے ہوئے کلاس کا ہر بچہ فخر سے اپنے والد گرامی کاپیشہ یا ذریعہ آمدن بتاتا تھا۔ جب پندرہ بیس بچے اپنا تعارف کرا چکے تو ایک بچہ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنا نام بتایا، اپنے ابو کا نام بتایا، اپنے اسکول کے بارے میں بتایا لیکن اپنے ابو کےپیشے یا ذریعہ آمدن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں نے جب اس باب میں اس سے اصرار کیا تو بولا ’’سر! میرے ابو کیا کرتے ہیں؟ میں یہ ہر گز نہیں بتا سکتا‘‘۔ بچے کایہ جواب میرے لئے ہی نہیں، وہاں موجود سارے بچوں کے لئے بھی غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ میں نے کہا میں یہ پوچھ کر رہوں گا کہ تمہارے ابو کیا کرتے ہیں۔ بچے نے پھر کہا کہ وہ ہر گز نہیں بتائے گا کہ اس کے ابو کیا کرتے ہیں؟ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ سو میں نے بچے سے سچ اگلوانے کے لئے ایک نفسیاتی حربہ استعمال کیا۔ میں نے کہا ’’کیا آپ کے ابو چور ہیں، ڈاکو ہیں؟ قاتل ہیں؟ رشوت خور ہیں؟ نیب زدہ ہیں؟ جیل میں بند ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیںسر! ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘۔ میں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات نہیں تو آپ کو بتا دینا چاہیے کہ آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟ میرے مسلسل اصرار پر وہ بچہ بولا :’’سر! میرے ابو سرگودھاکے ایک ہسپتال میں نائب قاصد ہیں‘‘۔

بچے کایہ جواب سن کر مجھے اطمینان ہوا۔ دراصل میں پہلے ہی جان چکا تھا کہ یہ بچہ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہے۔ بظاہر نہ دکھنے والی یہ معذوری، آدمی کو عمر بھر کے لئے مفلوج کر دیتی ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اس بچے کا علاج پہلے ہی دن کر دوں تاکہ یہ زندگی کے خوش کن احساس کے ساتھ اس کالج میں دو برس گزارسکے۔ بچے کا جواب سن کر میں نے کہا: ’’دیکھیں بیٹا! ابھی آپ سے پہلے لاہور سے تعلق رکھنے والے بچوں نے اپنے اپنے ابو کے پیشوں کے بارے میں بتایا۔ یہ سب ماشا اللہ کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں۔ آپ کے ابو سرگودھا کے ایک ہسپتال میں نائب قاصد ہیں۔ آپ کے ابو ان سب بچوں کے ابوئوں سے عظیم ہیں۔ آپ کے ابو کی تنخواہ تھوڑی ہے۔ وہ درجہ چہارم کےملازم ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے آپ کو حصولِ تعلیم کے لئے لاہور بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں آپ کسی ہاسٹل میں رہتے ہوں گے،کھانا بھی باہر سے کھاتے ہوں گے۔ آپ کے ابو نے اپنے وسائل سے بڑھ کر آپ پر سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ رزق حلال کماتے اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ پھر کیسی شرمندگی؟ آئندہ آپ ہمیشہ سینہ تان کر بتانا کہ میرے ابو درجہ چہارم کے ملازم ہیں۔ میری بات سن کر اس بچے کے چہرے پر اطمینان کا تاثر ابھرا۔ پھر میں نے اس کے عظیم باپ کے لئے پوری کلاس سے تالیاں بجوائیں۔

اس بچے کے بعد جب میں نے دوسرے بچوں سے تعارف کا سلسلہ شروع کیا تو کسی نے بتا یا کہ اس کے ابو مزدوری کرتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ پلمبر ہیں۔ کسی نے بتایا کہ اس کے ابو دہی بھلے فروخت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ موٹر سائیکلوں کو پنکچر لگاتے ہیں۔ بچوں کو احساس ہو چکا تھا کہ کوئی بھی پیشہ کم تر نہیں ہوتا۔ رزق حلال کمانے والے ہی اصل میں بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ، بڑے عہدوں اورزیادہ پیسے سے نہیں بنتے بلکہ اپنے کردار سے بنتے ہیں۔ خود میں نے بچوں کے سامنے احساس تفاخر کے ساتھ بتایا کہ میرے والد بشیراحمد راٹھور محکمہ زراعت میں کلرک تھے۔ وہاں سے فراغت پانے کے بعد وہ ایک پرائیویٹ ادارے سے بطور اکائونٹنٹ وابستہ ہوگئے۔ اب اس کلرک کے دو بیٹے ماشا اللہ پروفیسر ہیں اور دو کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ نئی نسل رزقِ حلال پر بھی شرمندگی محسوس کرتی ہے؟ بات یہ ہے کہ نو دولتیوں نے ساری اخلاقی اقدار ہی بدل کر رکھ دی ہیں۔ آج بڑی گاڑی اور عالی شان مکان رکھنے والوں کو خواہ مخواہ معزز خیال کر لیا جاتا ہے ۔ کردار اور اخلاق کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دولت کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی محلے میں ایک کلرک بھی ہوتا تھا تو لوگ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اسے بابو سمجھا جاتا تھا۔ جب سے ہمارے کرنسی نوٹوں پر ’’حصولِ رزق حلال عین عبادت ہے‘‘ درج ہوا ہے تب سے بدعنوانی بڑھ گئی ہے۔ رزقِ حلال سے لوگوں کا ایمان ہی اٹھ گیا ہے۔

رزق حرام کمانے والے سارے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسی طرح رزق حلال کمانے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کاہاتھ تھامیں۔ ان کی مدد کریں۔ ان کوسراہیں۔ انہیں ہیرو سمجھیں تاکہ ایک بار پھر اصل انسانوں کی پہچان ہو سکے۔ معاشرہ ایک بار پھر خوب صورت ہو جائے۔ اچھائی آج بھی موجود ہے لیکن برائی کا شور زیادہ ہے۔ اچھائی کی آواز، اس شور میں کہیں دب کر رہ گئی ہے۔ آج جب ایک رکشا والا اپنی سواری کا نوٹوں اور زیورات سے بھرا بیگ اس کے گھر دینے جاتا ہے تو مجھے خیال آتا ہے کہ اچھائی ابھی زندہ ہے۔ ایسے اچھے واقعات روز ہوتے ہیں لیکن انہیں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جاتا جس طرح چوری، ڈکیتی اور بدعنوانی کی خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ ہم اگر اچھائی کو اچھائی سمجھ کر بیان کردیں تو شاید یہ بھی ہماری اچھائی ہی ہوگی۔

تازہ ترین