• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں امن کی کلید‘ کے موضوع پر مذاکرے کا انعقاد

امریکن انسٹیٹیوٹ آف پالیٹیکس اینڈ پبلک پالیسی کے زیر اہتمام منعقدہ ’مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں امن کی کلید‘ کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا انعقاد ہوا جس کی صدارت آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کی۔

مباحثے میں ریاست ٹیکساس کی اسمبلی ہاؤس آف ریپرزینٹیٹیو کے ممبران ٹیری میزا اور جیسمین کروکٹ، پولیٹیکل اینڈ پبلک پالیسیز کے مبشر وڑائچ، ڈاکٹر نوید، سکھس فار جسٹس (خالصتان موومنٹ) کے سویندر سنگھ، ممبر اسمبلی آزاد کشمیر حافظ احمد رضا قادری، پاکستان سوسائٹی آف نارتھ ٹیکساس کے صدر عابد ملک اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

‎آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی مفصل تقریر ان کے اپنے پیج پر موجود ہے، اُنہوں نے چند اہم باتیں کیں جن کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے:

‎راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ؛

‎1- اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ناکام رہا ہے۔

2- کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے پرامن اور منصفانہ حل کے لیے اور ذرائع بھی تلاش کرنا ہوں گے۔

3- جمہوری ممالک کی پارلیمنٹس سے روابط کو مظبوط کر کے انہیں باور کرانا ہو گا کہ ریاست جموں وکشمیر ایک اکائی ہے جسے تقسیم کرنے کا اختیار نہ ہندوستان کو ہے نہ ہی پاکستان کو، یہ حق کشمیری عوام کا ہے۔

‎انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے۔

‎اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے اندر قائم ڈائسپورہ کے تھنک ٹینکس ایک مظبوط اور فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔

‎کشمیر گلوبل کونسل اور ساؤتھ ایشیا ڈیمو کریسی واچ کے بورڈ ڈائریکٹر راجہ مظفر نے کہا کہ:

‎کشمیر خود ایٹمی فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہو چکا ہے، یہ جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ 

 راجہ مظفر نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے بیان کا جس میں صدر نے کہا تھا کہ کشمیر دنیا کا سب سے خطرناک مسئلہ ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسلہ عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ 

بائیڈن انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسلہ کو کشمیری عوام کی امنگوں، زمینی حقائق، اس کی علاقہ میں سیاسی و جغرافیائی اہمیت اور خود کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوششوں میں میں شامل ہوں اور کلیدی کردار ادا کریں۔ 

راجہ مظفر نے واشنگٹن کانفرنس میں بیورلی ہل کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’اُنہوں نے امریکی عوام کو ان کی اپنی جنگ آزادی کی تحریک کی یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ  تمام انسان یکساں پیدا کیے گئے ہیں، انہیں ان کے خالق کی طرف سے کچھ ناقابل تنسیخ حقوق عطا کیے گئے ہیں، ان میں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کے حق شامل ہیں۔‘

‎ یہ جملے یہ حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں امریکیوں کی نفسیات میں رچے بسے ہیں، ہم امریکی کشمیریوں کے آزادی اور اپنے ہی وطن پر ان کے حق حکمرانی کے مطالبہ پر کیسے بہرے بن سکتے ہیں؟

‎ آزادی خود مختاری اور خود پر حکومت کا حق کشمیری عوام کا بنیادی حق ہے۔

‎آزادی کے لیے انگریزوں سے 170 سال لڑنے والا ہندوستان یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ کشمیریوں کو بھی آزادی کا حق حاصل ہے، پاکستان اس خوف سے پیدا ہوا تھا کہ نئے ہندوستان میں حقوق اور آزادیوں کا یکساں تحفظ نہیں کیا جائے گا، پھر پاکستان کی حکومت کشمیریوں کی خود مختاری کی خواہش کا احترام کیوں نہیں کرتی! امریکیوں نے بھارتیوں اور پاکستانیوں دونوں کو مظلوم فریق جانا تھا اور دونوں کی تاج برطانیہ سے آزادی کے موقف اور جدوجہد کی حمایت کی تھی۔

‎ انصاف کا تقاضہ ہے کہ ہم مظلوم فریق کے لیے ہمدردی کا اظہار کریں اور آج مظلوم فریق کشمیر ی ہے۔

‎راجہ مظفر نے کہا کہ کشمیر کے سوال پر با معنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے بائیڈن انتظامیہ، بھارت، پاکستان اور کشمیریوں کو میز پر لانے میں تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے، کشمیر پر جلد از جلد مذاکرات شروع کرانے کی امریکی ادارے اٹلانٹک کونسل کی ان آٹھ وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کونسل نے امریکی حکومت کو اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکا کو اب کشمیرکے مسلہ کے حل پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

راجہ مظفر نے کہا کہ کشمیر گلوبل کونسل جلد ہی آپ کے ادارے سمیت دیگر امریکی اداروں کے تعاون سے کشمیر پر کانفرنسیں اور مذاکرے منعقد کرے گا۔

To We سیمنار سے ممبرہاؤس آف ٹیکساس جیسمین کروکٹ (Jasmmine Crockett)، Terry Meza کے علاوہ انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ پبلک پالیسیزکے مبشر وڑائچ، ڈاکٹر نوید، سکھس فار جسٹس (خالستان موومنٹ) کے سویندر سنگھ، ممبر اسمبلی آزاد کشمیر حافظ احمد رضا قادری، پاکستان سوسائٹی آف نارتھ ٹیکساس کے صدر عابد ملک اور دیگر نے بھی خطاب کیا.

تازہ ترین