• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ملک بھر میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا چرچا رہا جہاں ہونے والے مختلف اجلاسوں میں سوسائٹی کے حسّاس ترین طبقوں ججز، وکلا، طلبا، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا جس پر ایک طرف پاکستان میں جمہوریت، آئین اور انسانی حقوق کے حامیوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے تو دوسری طرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حامیوں نے اس ’’ جراتِ ندانہ ‘‘ پر حسبِ سابق انہیں دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر ان کی شدید مذّمت کی۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر پاکستانی تاریخ کی ان گِنی چُنی شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے کسی بھی سیاسی یا جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ہمیشہ بے لوث جدوجہد کی۔آج ان کی صاحبزادی منیزے جہانگیر ان کے اصولوں اور یادوں کے چراغوں کو جس طرح روشن کئے ہوئے ہیں، اس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔یوں تو اس کانفرنس کا ہر سیشن اپنے عنوان اور مواد کی وجہ سے بہت اہم تھا لیکن اس کا افتتاحی، اختتامی اور طلباکے مسائل کے حوالے سے ہونے والا سیشن خصوصی اہمیت کا حامل تھاجس میں سابق فاٹا، وزیرستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور دیگر پسماندہ علاقوں کے طلبانے شرکت کی اور ریاستی اداروں کی طرف سے اُن سے ہونے والے مبیّنہ امتیازی سلوک سے پردہ اٹھایا۔ ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کے اہم رہنما جناب علی احمد کرد نے اپنے ہی ادارے یعنی عدلیہ اور اس پر اثر انداز ہونے والے اداروں کے بارے میں جو تاریخی سچائیاں بیان کیں۔ وہ اتنی کڑوی تھیں کہ پہلے اجلاس میں موجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد اور بعد میں حکومتی اہلکاروں نے اس کا خاصا برا منایا۔ چیف جسٹس صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ کسی میں جرا ت نہیں کہ وہ ان پر دبائو ڈال سکے۔ اُن کی یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے مگر پاکستان کی عدالتی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں اعلیٰ عدالتوں نے ایسے فیصلے صادر کیے جو نہ صرف انصاف کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھے بلکہ انہوں نے ملک و قوم کو ہمیشہ کے لیے تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ جسٹس منیر کے ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے نہ صرف مارشل لائوں کے راستے کھول دئیے بلکہ عدلیہ کو طاقتور وں کے ہاتھوں موم کی ناک بنادیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کو دنیا کے نامور قانون دانوں نے ’’ عدالتی قتل ‘‘ قراردیا جس کی نظیر ملک کی کسی عدالت میں پیش نہیں کی جاتی۔ یہی حال دورِ حاضر میں نوازشریف نا اہلی کیس کا ہے جس میں انہیں اپنے بیٹے سے واجب الوصول تنخواہ نہ لینے پر سزا دی گئی۔ حالانکہ جسٹس شوکت صدیقی اپنے حلفیہ بیان میں اداروں پر مداخلت کا الزام لگا چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے پاکستانی عدلیہ کا نمبر 136واںہے جبکہ مراعات کے حوالے سے ہماری عدلیہ دنیا کے پہلے دس ممالک میں شمار کی جاتی ہے۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری عدلیہ میں انصاف پسند جج نہیں رہے۔

ہم جسٹس کارنیلس، جسٹس رستم کیانی، جسٹس یعقوب، جسٹس درّاب پٹیل، جسٹس صفدر علی شاہ، جسٹس وقار سیٹھ ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور دیگر اُن ججوں پر فخر کرتے ہیں جنہوں نے ڈکٹیٹروں کے PCOکے تحت حلف اٹھانے کی بجائے نوکری کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا، اسی طرح سیاسی رہنمائوں کے سیشن میں بڑی سیاسی جماعتوں سے لیکر حساس علاقوں کی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال پر جو تبصرے کیے انہوں نے جناب علی احمد کرد کی اس وارننگ کو صحیح ثابت کردیا کہ محرومیوں اور اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا ذکر کیا تو کئی حاضرین کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پاکستان میں آج میڈیا اور اظہارِ رائے پر جو خوفناک پابندیاں ہیں وہ نہ صرف بیرونی دنیا میں ہمارے لیے باعث ِ شرم ہیں بلکہ ہمارے اربابِ بست و کشاد کی کم عقلی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں جب خبروں کے ہزاروں راستے کُھل چکے ہیں۔ سچائی کو قید کرنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود سابق وزیرِ اعظم کے خطاب کے دوران تاریں کاٹ دی جاتی ہیں۔ لیکن ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ ہم کسی اور سیّارے کی مخلوق نہیں۔ اسی دنیا کے باسی ہیں۔

تازہ ترین