ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اہل یہود میرے خلاف بہت باتیں کرتے ہیں۔ آپ اہل یہود کے منہ بند کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جواب دیا کہ اہل یہود میرے خلاف بھی بہت باتیں کرتے ہیں، اگر میں نے اپنے لئے ان کے منہ بند نہیں کئے تو تمہارے لئے کیسے کر سکتا ہوں؟ جب بھی ہم مسلمان ایک دوسرے کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں تو مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قصہ یاد آجاتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ جس قوم کی بدزبانیوں سے موسیٰ دل برداشتہ ہو گئے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو اسی قوم سے منسوب کردیتے ہیں۔ آجکل مولانا فضل الرحمن اور عمران خان ایک دوسرے کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ جیسے جیسے 22 اگست کا ضمنی الیکشن قریب آرہا ہے دونوں کے الزامات میں شدت آرہی ہے۔ عمران خان نے لکی مروت میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کی اور کہا کہ مولانا کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو پاکستان میں کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔ عمران خان نے یہ سخت باتیں مولانا فضل الرحمن کے الزامات کے جواب میں کہی ہیں کیونکہ مولانا صاحب بھی عمران خان کو کئی مرتبہ یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے چکے ہیں۔ میری ان دونوں رہنماؤں کے ساتھ پرانی نیاز مندی ہے۔ میں ان دونوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ ایک دوسرے پر تنقید ضرور کریں لیکن ایسے الزامات نہ لگائیں جو کسی مسلمان کے ایمان پر حملہ تصور کئے جائیں چھوٹا منہ بڑی بات۔ اگر دونوں رہنما برا نہ منائیں تو عرض ہے کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوذر سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا کہ جو شخص کسی مسلمان کو فاسق یا کافر کہے اور درحقیقت وہ فاسق یا کافر نہ ہو تو خود کہنے والا فاسق اور کافر ہو جائے گا۔ سیدنا ابوہریرہ کے بقول رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کیونکہ بدگمانی جھوٹ ہے اور کسی کے عیبوں کی تلاش اور جستجو نہ کرو اور آپس میں حسد اور ترک ملاقات نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو بلکہ اللہ کے بندے اور ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن کر رہو۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق غیبت ایک گناہ ہے جبکہ بہتان ڈبل گناہ ہے۔ افسوس کہ جب ہمارے سیاسی ودینی رہنما ایک دوسرے پر بہتان تراشی کرتے ہیں تو پھر یہی کام ان کے پیروکار بھی ایک دوسرے کے خلاف کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پیروکاروں نے مساجد، مدرسوں اور دینی اخبارات وجرائد میں عمران خان کو مشق ستم بنا رکھا ہے اور عمران خان کے پیروکاروں نے سوشل میڈیا پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ نہ عمران خان جانتے ہیں کہ مدارس کے چھوٹے چھوٹے طلبہ ان کا نام کتنی حقارت سے لے رہے ہیں۔ نہ فضل الرحمن کو احساس ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک پر کمپیوٹر کے کمالات کے ذریعے ان کی شکل کو کیسے بگاڑا جا رہا ہے۔ شاید دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرتوں سے کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔ شاید دونوں کو کوئی فرق نہ پڑے لیکن مجھے فرق پڑتا ہے۔
مجھے یہ پریشانی ہے کہ تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام پڑھے لکھے لوگوں کی جماعتیں ہیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگ جس جاہلانہ اور ظالمانہ انداز میں ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں وہ حیرت انگیز بھی ہے اور تشویش ناک بھی ہے۔ایک جماعت کے قائدین انگریزی میڈیم اسکولوں سے پڑھ کر نکلے ہیں دوسری جماعت کی قیادت دینی مدارس سے آئی ہے۔ یہ پڑھے لکھے لوگ اپنے سیاسی اختلافات کو عدالتوں میں لے گئے ہیں کیا یہ صرف دو سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے یا ہمارے پورے پڑھے لکھے طبقے کا المیہ ہے؟ آجکل آپ پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ وہ آپ کو اپنی سابقہ حکومت میں کرپشن کے ایسے ایسے قصے سنائیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) والوں کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ مسلم لیگ (ن) والے غیبت اور بہتان تراشی میں کسی سے کم نہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ بند کمرے میں صرف اپنوں کی ایسی تیسی کرتے ہیں اور یہ ایسی تیسی آپ سن لیں تو شاید دیواروں سے ٹکریں مارنے کے سوا کچھ نہ سوجھے۔ ہمارے دانشور اور استاد بھی کسی سے کم نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور یا کراچی یونیورسٹی کے چار اساتذہ کے ساتھ بیٹھ جائیں وہ تعلیمی مسائل پرکم اور ایک دوسرے کے خلاف زیادہ گفتگو کریں گے۔ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے وکلا کے ساتھ بیٹھ جائیں یہ لوگ بھی اپنے ساتھیوں کی فیسوں اور ٹیکس چوریوں کی ٹوہ میں نظر آئیں گے۔ صحافیوں کی کسی محفل میں بیٹھ جائیں، فن چغل خوری اور یاوہ گوئی انتہا پر نظر آئے گا۔ دو گلوکاروں یا اداکاروں کے ساتھ بیٹھ جائیں حسد کی آگ کی تپش سے آپ کو اپنا جسم بھی جلتا محسوس ہو گا۔ پچھلے دنوں میں کراچی میں پاکستان کے تین بڑے کرکٹرز کے ساتھ بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھیوں کے اتنے اسکینڈل سنا دیئے کہ میری عقل جواب دینے لگی ان پڑھے لکھے اور متمول لوگوں کی نسبت آپ کسی ڈرائیور، مزدور، باغبان، سیکورٹی گارڈ یا چپراسی کے ساتھ گفتگو کریں وہ دوسروں کے بارے میں کم اور اپنے بارے میں زیادہ گفتگو کرے گا کیونکہ اس کی بقاء خطرے میں ہے وہ اپنے مسائل بتائے گا۔ آپ کو دعائیں دے گا اور آپ سے دعائیں طلب کرے گا۔ مجھے معاف کیجئے گا۔ پڑھے لکھے لوگوں سے گفتگو مایوسی اور گھٹن پیدا کرتی ہے عام لوگوں سے گفتگو میں سچائی اور تازگی نظر آتی ہے۔ آپ 15 اگست کو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں پیش آنے والے ایک واقعے پر غور کریں۔
سکندر نامی شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں میں آٹومیٹک ہتھیار اٹھا کر چھ گھنٹے تک پورے اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا۔ حکومت اور پولیس اس کے ہاتھوں بے بس تھی۔ آخر کار زمرد خان آئے اور انہوں نے سکندر پر جست لگا کر ایسے حالات پیدا کردیئے کہ چند سیکنڈ میں سارا ڈرامہ ختم ہوگیا۔ عام لوگوں نے زمرد خان کو ہیرو قرار دیا لیکن پڑھے لکھے لوگ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کے لٹھ لے کر زمرد خان پر برسانے لگے۔ اب تو حکومت اور پولیس اپنی تمامتر ناکامیوں کا ملبہ زمرد خان اور میڈیا پر ڈال رہی ہے۔ میڈیا سے کچھ غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں لیکن میڈیا کا اصل جرم یہ ہے کہ اس نے اسلام آباد میں حکومت کی نااہلی کو لائیو کوریج کے ذریعے بے نقاب کیا۔ اگر میڈیا کے کیمروں کو موقع سے ہٹا کر آپریشن کرنا مقصود تھا تو اس کیلئے کسی بھی سینئر صحافی سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو موقع سے ہٹائے۔ یہ کوئی مشکل نہ تھا۔ اب ایک طرف زمرد خان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں دوسری طرف میڈیا پر وہی الزامات لگائے جا رہے ہیں جو 2007ء میں جنرل پرویز مشرف لگاتے تھے جب میڈیا معزول چیف جسٹس کے جلوسوں کی کئی کئی گھنٹے لائیو کوریج کرتا تھا تو پیمرا نوٹس دیا کرتی تھی۔ آج ایک بندوق بردار کے ہاتھوں پاکستان کے ریاستی اداروں کی بے بسی کو عوام کے سامنے لانے پر نوٹس جاری کئے جا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میڈیا کا کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے۔ ہم نے تو اس ضابطہ اخلاق کیلئے جولائی 2012ء میں سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ ہماری درخواست ابھی زیرسماعت ہے لیکن متفقہ ضابطہ اخلاق کی عدم موجودگی کس کی ناکامی ہے؟ چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے کو یہودیوں کا ایجنٹ اور ملک دشمن کہنے والے بھلے زمرد خان اور میڈیا پر لعن طعن کریں لیکن زمرد خان اس ملک کے عام لوگوں کا ہیرو ہے اور میرے جیسے صحافی خاص لوگوں کے ساتھ نہیں عام لوگوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔