• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بجلی کے شعبے میں بڑی بدانتظامی کی ایک اور داستان

پاکستان کے بجلی کے شعبے میں بڑی بد انتظامی کی ایک اور داستان سامنے آگئی، حکومت ہر سال آئی پی پیز کو استعمال نا ہونے والی 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی مد میں سالانہ 850 ارب روپے ادا کر رہی ہے، مگر 4 لاکھ 85 ہزار بجلی کے نئے کنکشن مانگنے والے پاکستان کے عوام کو بجلی لگا کر نہیں دے رہی۔

جیو نیوز کو ملنے والی معلومات کے مطابق بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس بجلی کے نئے کنکشن کی 4 لاکھ 85 ہزار سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں، جبکہ حکومت نجی بجلی گھروں کو ہر سال استعمال نا ہونے والی اوسطاً 10 ہزار میگا واٹ بجلی کی قیمت بھی ادا کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ شوکت تر ین کے مطابق حکومت پاکستان ہر سال 850 ارب روپے نہ استعمال ہونے والی اضافی بجلی کی مد میں آئی پی پیز کو ادا کررہا ہے، یہ رقم رواں سال ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔

پچھلے سال پاور ڈویژن نے گردشی قرض ختم کرنے کا منصوبہ کابینہ کے سامنے پیش کیا لیکن یہ صرف کہنے کی حد تک ہی رہا، اس دوران گردشی قرض میں اضافہ جاری رہا۔

جون تک پاکستا ن کا گردشی قرض دو ٹریلن 30ارب یعنی 2 ہزار 30 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں اب ان چھ ماہ میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔

زیر التواء درخواستوں کی تفصیل کے مطابق اس وقت ملتان کی بجلی تقسیم کار کمپنی میپکو میں بجلی کے نئے کنکشن کے لئے سب سے زیادہ 2 لاکھ 18ہزار بارہ درخواستیں زیر التواء ہیں۔

لاہور کی تقسیم کار کمپنی لیسکو میں ایک لاکھ سات ہزار 866، پشاور کی کمپنی پیسکو میں چار ہزار 664، اسلام آباد کی کمپنی آئیسکو میں 44 ہزار 225 ، گوجرانوالہ کی کمپنی گیپکو میں 51 ہزار 30 اور فیصل آباد کی فیسکو میں 54 ہزار 278 درخواستوں پر نئے کنکشن نہیں دیے جارہے۔

حیدرآباد کی بجلی تقسیم کار کمپنی حیسکو میں تین ہزار 69، سکھر کی کمپنی سیپکو میں 524، کوئٹہ کی کیسکو میں 470 جبکہ کے الیکٹرک میں 17ہزار 705 درخواست دہندہ نئے کنکشن کے منتظر ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ بجلی دستیاب ہے مگر عوام کو کنکشن کیوں نہیں دیے جا رہے؟ بغیر استعمال اس بجلی کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ اس معاملے پر متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود وفاقی وزیرتوانائی حماد اظہرنے جواب نہیں دیا۔

تازہ ترین