• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتیں آزاد ہیں آزاد رہیں گی، گرما میں گرمی والا، سرما میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے، فیصلوں کو عدلیہ کا رجحان قرار دینا نامناسب، چیف جسٹس

لاہور (نمائندہ جنگ، اے پی پی) چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہمارا کام ہے، عدالتیں آزاد ہیں اور آزاد رہیں گی، جج صاحبان موسم گرما میں گرمی اورموسم سرما میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے، فیصلوں کو عدلیہ کا رجحان قرار دینا مناسب نہیں، اگر انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم جج رہنے کے قابل نہیں،عدالتوں کو ہر شہری کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے، ماتحت عدالتوں کا بہت برا حال، حکومت اور چیف جسٹس صاحبان اس پر توجہ دیں، ججوں سے بدتمیزی اور تشدد کرنا وکلا کا کام نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پنجاب بار کونسل میں ”انصاف کی فراہمی میں عدلیہ اور وکلاء کے کردار “ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا وکلاء کو عدلیہ پر حملوں کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا پاکستان عدم برداشت والا معاشرہ بن رہا ہے۔ وائس چیئر مین فرحان شہزاد نے کہا اس سیمینار کا مقصد بار اور بنچ میں غلط فہمیاں دور کرناہے، ہمیں عوام کی توقعات پر بھی پورا اتر نے کیلئے عدلیہ اور بار کیلئے بہتر کردار ادا کرنا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سیمینار سے خطاب میں مزید کہا کہ ماتحت عدالتوں کا بہت برا حال ہے، ماتحت عدالتوں کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، متعلقہ چیف جسٹس صاحبان اس حوالے سے اقدامات کریں، پنجاب بار کونسل کو وکلاء کیخلاف تادیبی کارروائی پر مبارکباد دیتا ہوں، وکلاء کا کام ججوں کی معاونت کرنا اور بحث کرنا ہے وکلاء کا کام نہیں کہ ججوں کے ساتھ بدتمیزی کریں اور تشدد کریں، وکیل کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح جج کے سامنے پیش ہونا ہے، وکلاء خود کہتے ہیں کہ عدلیہ ہمارا گھر ہے پھر اپنے گھر میں کیوں ایسا سلوک کرتے ہیں،اگر ایک فیصلہ کسی پارٹی کیخلاف آیا ہے تو اپیل کا حق ہے اپیل میں جائیں، وکلاء نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے، بار کونسل کی ذمہ داری ہے کہ انرولمنٹ کے وقت وکیل کو آداب سکھائیں، وکلاء کو علم ہونا چاہیے کہ جج اور کلائنٹ کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے،بار کونسلیں انرولمنٹ کے وقت اپنا کردار ادا کریں اور اس نئے وکیل کا مکمل انٹرویو کر یں کہ اس نے کیا کرنا ہے جو وکیل انٹرویو میں مطمئن نہ کر سکے اسکو بار کونسل گائیڈ لاین دے، بار کونسل کو علم ہونا چاہیے کہ کن چیمبروں میں نئے وکلاء کیلئے جگہ ہے نئے وکیل کو جنگل میں تنہا نہ چھوڑیں، پنجاب بار کونسل سنجیدگی سے کام کر رہی ہے جو قابل تعریف ہے، وکلاء اور عدلیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو ایک دوسرے کیخلاف نہیں ہو سکتے، وکلاء نے عدالتوں کا تحفظ کرنا ہے، وکلاء اور ججوں کو آپس میں لڑنے اور ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، قانون میں گنجائش ہے کہ وکیل کسی فیصلے کیخلاف اپیل کرے ایک عدالت غلط فیصلہ کرتی ہے تو دوسری اور تیسری عدالت اس کو درست کر دیتی ہے، وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ ججوں پر ایک حد میں رہ کر تنقید کریں، عدلیہ کا کوئی ر جحان نہیں ہوتاجج ہر کیس کی نوعیت کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے، عدلیہ آزاد ہے آزاد ہی رہے گی، وکلاء کی کچھ چیزوں میں ورکنگ ہونا ضروری ہے، وکلاء اور ججوں کو ٹینشن فری ہونا چاہیے، بار کونسلو ں کو اپنے وکلاء کی مشکلات کا حل نکالنا ہوگا، پوری عدلیہ میں کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کسی کو الزام دینا مناسب نہیں، پاکستان میں آنے والی وبا ءکی وجہ سے کیسوں کے فیصلوں میں تاخیر ہوئی اور تعداد میں اضافہ ہوا کیسوں کے ڈیڈ لاک کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وکلاء کو کیسوں میں غیر ضروری تاریخیں لینے سے گریز کرنا ہوگا، وکیل پیش نہ ہونے کی صورت میں اپنے متبادل وکیل کا انتظام کریں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس قسم کے سیمینار کرانے چاہئیں، قانون کی حکمر انی ہمارا کام ہے اسکو چھوڑ نہیں سکتے، ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں جیسا کہا جا رہا ہے ملک کے ایسے حالات ہوئے تو عدلیہ مقابلہ کریگی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے کہا یہ تقریب ایسا قدم ہے جس میں وکلاء نمائندوں نے ہم سے باتیں شیئر کیں وکلاء کو قانون اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے گھر نقب لگائیں اگر وکلاءعدلیہ پر حملہ کرینگے تو کیا انسداد دہشت گردی دفعات نہیں لگے گی وکلاء کو عدلیہ پر حملوں کا لا ئسنس نہیں دے سکتے، بار ممبران ذاتی مسائل کیلئے ججوں سے ملتے ہیں منتخب ممبران اس طرح کام کرینگے تو عدلیہ سے پھر کیا توقعات رکھ سکتے ہیں، وکلاء کی چیمبرز پریکٹس ختم ہو گئی ہے جن وکلاء کے پاس چیمبرز نہ تھے وہ جج بنے جن وکلاء نے محنت کی اللہ تعالیٰ نے انکی مدد کی پریکٹس نہ رکھنے والوں کو کون لیگل ایڈوائزر رکھے گا5سال پریکٹس کرنے والے وکیل کو ڈنڈے سوٹے کی ضرورت نہیں رہے گی ہمیں وکلاء کی چیمبرز پریکٹس کروانے کی ضرورت ہے سسٹم تب چلتا ہے جب وکلاء چیمبرز میں جا ئینگے بہت سارے چیمبرز ڈنڈے سوٹے والے وکلاء تیار کر رہے ہیں، ہم بار کونسل کے ساتھ ہیں وکلاء میکنزم بنائیں وکلا تشدد کو روکنے کیلئے ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، وکلاء کیلئے دروازے کھلے ہیں وکلاء کو عدلیہ پر حملوں کی اجازت نہیں دینگے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے یہ میری ذمہ داری ہے کہ حصول انصاف میں اپنا کردار ادا کریں، آئین پاکستان سوشل کنٹریکٹ ہے حکومت پاکستان نے آئین پاکستان کے تحت شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، عدلیہ اور بار کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر حکومت پاکستان ناکام ہو گئی ہے تو عدلیہ یہ بیڑہ اٹھا لے اگر حکومت بنیادی حقوق کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکی تو اب یہ کام عدلیہ کی ذمہ داری بن گئی ہے اگر عدلیہ نے آج اپنا رول ادا نہ کیا تو پاکستان کو کوئی تباہی کے دھانے سے بچا نہیں سکے گا،اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے15 سو سال قبل قانون کی حکمرانی کا تصور ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے دیا۔ وائس چیئرمین فرحان شہزاد نے کہا ہمیں گھوسٹ لا کالجوں اور جعلی ڈگریوں سے پیدا مسائل کو دور کرنا ہے، انشا اللہ ان مسائل کو حل کیا جائیگا، پنجاب بار کونسل کی ذیلی کمیٹیاں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں میں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹربیونل کو فعال کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں عدلیہ میں بھی احتساب کا عمل برابری کی بنیاد پر کیا جائے جج اور وکیل کے حلف ناموں کی پاسداری ضروری ہے ہم عدلیہ کے ساتھ ملکر تمام مسائل کا حل کرینگے ہم نے پریشر کے باوجود کڑوے فیصلے کیے اور وکلاء کیخلاف تادیبی کارروائی کی ہمیں حصول انصاف اور بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا۔ سیمینار میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان ، چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی حاجی محمد افضل دھرالہ ، ممبران پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ ، ممبران پنجاب بار کونسل محمود بھٹی ، منیر حسین بھٹی و دیگر وکلاءکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

تازہ ترین