کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر و سینٹر ریٹائرڈ امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ گوادر ڈیپ سی پورٹ کو ترقی دینے کی بات پارلیمنٹ میں بی این پی نے 1997 میں اُٹھا ئی اور اس کا افتتاح بھی نواز شریف کے ہاتھوں ہوا مگر اس کے مضر اثرات و گوادر کے مستقبل کو لاحق خطرات پر بھی بی این پی نے سینٹر حبیب جالب شہید کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی قائم کی جس کے اجلاسوں میں جے ڈبلیو پی کی نمائندگی کا بارہا موقع ملا نواب خیر بخش مری مرحوم بھی ان اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے، اسی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ واضح و ٹھوس مطالبات رکھے گئے ۔ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ ان مطالبات میں بلوچ کے ساحل و وسائل پر دسترس اور بلوچ کے قومی شناخت کو برقرار و تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا،گوادر میں زمین کے مالکان حقوق و ووٹ دینے کے حق کو کچھ سالوں کے لئے معطل کرنے،گوادر کے جغرافیائی حدود کو تبدیل نہ کرنے اور Demographically Change کے ذریعے اس کے شناخت کو تبدیل نہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا مگر آج حالت یہ ہے کہ وہاں صوبائی حکومت لاچار ہے جبکہ گوادر سمیت مکران اب نئی اصطلاح جنوبی بلوچستان کے نام پر مکمل طورپر ایف سی و کوسٹ گارڈ اور چائنیز ٹرالرز کے نرغے دے کر گوادر کے عوام کو محصور بنادیا گیا ہےاس لئے مولانا کی جدوجہد دراصل اسی چنگاری کا ایک لاوا ہے اگر اس کے تدارک کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ وہی غلطی ہوگی جو 1970 میں شیخ مجیب الرحمنٰ کے 6 پوائنٹ میں سے 5.5 پوائنٹ تسلیم کئے گئے مگر آدھا پوائنٹ نہ مان کر مجیب کو بھائی سے باغی و مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنادیاگیا۔ آج گوادر کے تین طرف سمندر ایک طرف خشکی ہے اور اگر گوادر کے دھرنے والے کچھ نہ کریں ان کی عورتیں و بچے اپنی جان و مال عزت و عصمت و عافیت کے دفاع میں نعرہ تکبیر بلند کرکے غلیل و خالی شیشے کی بوتلوں کا استعمال کریں تب پولیس تو کیا کسی فورس کو گوادر سے نکلنے کا راستہ تو کیا سمندر میں ماہی گیروں کے غوطوں سے کوئی نہیں بچا سکے گا مگرہمیں یقین ہے کہ بلوچستان کی پولیس کسی سے کم غیرت مند نہیں جس نے 9 اپریل 1977 کو لاہور کے مال روڈ پر تاجروں و اپنے عوام پر گولی چلانے سے انکار کرکے بنگالی سپاہیوں کی طرح اپنی بندوقیں عوام کے حوالے کردیں جس کے نتائج بھٹو حکومت کے خاتمے پر ہوئے۔