10اکتوبر 2021ءکی صبح ہم نےموبائل ہاتھ میں لیاہی تھا کہ بہن، شائستہ فرحت کی کال آگئی کہ’’ ٹی وی کھولو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال ہو گیا ہے ۔‘‘خبر سُنتے ہی دل گویا غم کے اندھیروں میں ڈوب گیا،ایک دھچکا سا لگا اور پَل بھر میں ایک ایک کر کے اُن سے ملاقاتوں کی فلم ذہن میں چلنے لگی۔ایک عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائنس دان ،جنہوں نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیرایٹمی قلعہ بنانے میں بنیادی کردار ادا کیااور اپنے وطن کے لیے وہ قابلِ فخر کارنامہ انجام دیا کہ آج ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں، اب ہم میں نہیں رہے۔
ڈاکٹر صاحب سے ہمارا تعلق دِنوں، مہینوں پر نہیں ، برسوں پر محیط تھا کہ اُن سے ہماری خط و کتابت 1992ءمیں شروع ہوئی تھی۔ اُن کی جائے پیدائش بھوپال تھی، اسی نسبت سے اُنہیں بھوپال سے والہانہ عشق تھا ۔ بھوپال کا نام آتے ہی ڈاکٹر اے کیوخان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور چہرے پر رونق آجاتی اورشاید اسی لیے وہ ہمارے بنائے ’’بھوپال انٹر نیشنل فورم‘‘ اور’’محبّانِ بھوپال فورم‘‘ کی ادبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اُس زمانے میں وہ جس تن دہی اورانہماک سے کہوٹہ میں قائم ایٹمی پلانٹ پر کام کر رہے تھے ،اُسی سبب آزادانہ طور پر کسی سے مل جُل نہیں سکتے تھے۔
جب 1995ء میں ہماری شادی اویس ادیب انصاری سے طے ہوئی ، تو والد صاحب نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بھی بلاوا بھیجا، مگر مصروفیات اور پابندیوں کے سبب وہ شادی میں شرکت نہ کرسکے، البتہ اس قدر وضع دار اورپُر خلوص شخصیت کے مالک تھے کہ شادی کے روز ہی فون کرکے معذرت کرتے ہوئے ڈھیروں دُعائیں اور مبارک باد دی۔ پھر ہم شادی کے ایک مہینے کے بعد اسلام آباد گئے،تو ہمیں کہوٹہ میں اپنے آفس میں صبح 11بجے بلایا۔ یہ ہماری ڈاکٹر صاحب سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔وہ بہت محبّت، خلوص اور گرم جوشی سے ملے۔گھر کے بڑوں کی طرح شوہر کو سلامی اور ہمیں تحائف سے نوازا، نیز،خود پر لکھی جانے والی کتب بھی تحفتاً عنایت کیں۔
ہم نے محسوس کیا کہ پُرتکلّف ناشتے کے دوران وہ بھوپال سے وابستہ اپنی یادوں میں کھو سے گئےتھے۔ انہوں نےبتایا کہ ’’مَیں نے اپنی ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم بھوپال ہی سےحاصل کی۔ وہاں کی خُوب صُورت جھیلیں اور تالاب آج بھی میری نظروں میں گھومتے ہیں۔ وہاں کی عمارتیں، سڑکیں اور پارکس آج بھی مسحور کرتے ہیں کہ اُن کا خمار ٹوٹتا ہی نہیں۔ وہاں کی میتھی بھاجی اور روے کا حلوا آج بھی مجھے یاد آتا ہے۔‘‘ خیر، ہم کہوٹہ پلانٹ سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملاقات کی انتہائی خوش گوار، سنہری یادیں لے کر لَوٹے۔
مگر سارے راستے ذہن میں ایک ہی بات گردش کرتی رہی کہ گوکہ یہ شخص کس بُری طرح بھوپال کے عشق میں مبتلا ہے، لیکن اس کا عشق وطن کی محبّت کے آڑے نہیں آتا کہ وہ اپنے وطن،پاکستان کو نا قابلِ تسخیر بنانے کے لیے پوری شدّت سے محنت کر رہاہے، انتہائی جاں فشانی سے اپنے کام میں مشغول ہے۔ اُس ملاقات کے بعد بھی ہماری خط وکتابت، فون اور ملاقاتو ں کے سلسلے جاری رہے۔ 1996ء میں بھوپال انٹرنیشنل نے کراچی میں بھوپال کی 10نام وَر شخصیات کو نشانِ سپاس دینے کا فیصلہ کیا، تو ایک نشانِ سپاس فخر ِبھوپال، محسنِ پاکستان، ڈاکٹر اے کیوخان کو بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن وہ سیکیوریٹی معاملات کی بناء پر چاہنے کے باوجود، تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ اور اپنی جگہ، اپنے بھائی عبدالقیّوم خان کوایوارڈ لینے بھیجا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان کو شعروشاعری صرف سُننے کی حد تک پسند تھی، مگروہ علم و ادب اور بہترین کتب کے دل دادہ تھے۔روزنامہ جنگ میں تو زندگی کے آخری دنوں تک کالمز لکھتے رہے۔اُن کے کالمزمیں مذہب اور ادب کا رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے شاید کبھی کُھل کر اظہار نہیں کیا، لیکن تنہائی اُنہیں کاٹتی تھی۔وہ احباب سے ملنا ، باتیں کرنا چاہتے تھے۔نظر بندی کے سبب ایسا نہ کر سکے تو کتابوں ہی کو اپناساتھی بنالیا۔بہترین اشعاراُن کی کم زوری تھے، اسی لیے اپنے پسندیدہ اشعار پر مشتمل ذاتی بیاض ’’نوادرات‘‘ کے نام سے شایع کی۔نیز، اُن کے اخبار کے کالمز پرمشتمل بھی ایک کتاب شائع ہوچُکی ہے۔
ہمیں یاد ہے، جب ہم’’ تذکرۂ شخصیاتِ بھوپال‘‘ لکھ رہے تھے، تو ڈاکٹر صاحب ہی نے چند نام تجویز کیے کہ ان پر لکھیے اور جب کتاب شایع ہوگئی ،تو کراچی میں اُن کی ہم شیرہ کے گھر جاکر ڈاکٹر اے کیو خان کو پیش کی۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے ’’تقریب ِ اجراء جلد کیجیے۔ مَیں ضرور آئوں گا۔ یہ تو بھوپالیوں سے متعلق میری پسندیدہ کتاب ہے اور20 کتابیں مجھے اسلام آباد بھجوادیں(کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے تھی)اور ہاں کتابوں کی قیمت بھی مَیں ضرور ادا کروں گا۔‘‘ہماری کتاب کی تقریبِ رونمائی کراچی میں ہوئی اور وہ خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔
اُس روز ان کے چہرے کی رونق اور خوشی دیدنی تھی۔اور ہمیں کتاب سے زیادہ اُن کے آنے کی خوشی تھی۔ پھر جب وہ اگلی بار کراچی آئے،تو ہمیں اپنی ہم شیرہ کے گھر بلایا۔ پٹھان آدمی اور وعدے کے پکّے تھے۔ خاطر مدارات کے بعد وہاں بیٹھے اپنے احباب سے ہمارا تعارف کرواتے ہوئےکہنے لگے ’’یہ ہمارے بھوپال کی دختر،شگفتہ فرحت ہیں، جنہوں نے بھوپال کی 200شخصیات پر مشتمل کتاب ’’تذکرۂ شخصیات‘‘ بھی لکھی ہے۔‘‘ پھر اپنی جیب ٹٹولی اور بھانجی سے کہا ’’کمرے سے میرا بٹوا لے آئو، کتابوں کے پیسے دینے ہیں۔‘‘ (بٹوا اور پیسے مخصوص بھوپالی انداز میں کہا ،اُن کے لب و لہجے کی شیرینی آج تک محسوس ہوتی ہے۔) ہمارے خاوند نے اُنہیں بہت منع کیا، مگر وہ نہ مانے۔ کہنے لگے ’’اویس میاں! اِس میں بہت محنت اور چھپوانے میں بہت پیسے لگے ہیں اور مَیں حیران ہوں کہ آپ لوگوں نے بغیر مدد کے یہ خرچہ کیسے برداشت کر لیا۔ پیسے تو آپ کو لینے ہی ہوں گے۔ یہی نہیں، مزید 30عدد کتابیں اسلام آباد بھجوادیں۔ مَیں اپنے احباب کو بطور تحفہ دوں گا۔‘‘ تو ایسے تھے، ڈاکٹر اے کیو خان، درد مند،علم دوست، انسان دوست۔ اوربھوپال سے محبّت اور قدر دانی کی جیتی جاگتی مثال۔
ڈاکٹر اے کیو خان کو صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہت دل چسپی تھی۔جب بھی کراچی آتے، جامعات اور طبّی اداروں کا طوفانی، با مقصد دورہ ضرور کرتے۔ خاموشی سے بے شمارلوگوں کی مالی امداد کرتے۔ جب بسترِعلالت پر تھے ، تواُن کے ایک ملازم کی بیٹی کی شادی تھی، توڈاکٹر صاحب نے اسے فرنیچر دینے کا وعدہ کیا اور پھرآخری ایّام تک متعلقہ لوگوں کو ہدایت دیتے اور پوچھتے رہے کہ’’ اُن کے گھر فرنیچر پہنچایا کہ نہیں…؟ ‘‘
ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کی سلامتی کے لیےجو عظیم کار نامہ انجام دیا ہے ، اُن کا حق بنتا ہے کہ کراچی میں ان کے نام سے ایک عظیم الشّان یاد گار تعمیر کی جائے۔ آہ! یہ مملکت ایک بہت قابل انسان، سچّے پاکستانی سے محروم ہوگئی ۔