یہ کہانی ہے 20 ویں صدی کی، یہ کہانی ہے، متّحدہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں پیدا ہونے والےدو بچّوں کی۔ اُن بچّوں کی، جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے بے حد ذہین و فطین ، قابل اور محبّ ِ وطن تھے، جنہوں نے اپنے علم، عمل اور حُبّ الوطنی کے صلےمیں خُوب نام کمایا۔
گوکہ دونوں بچّے پیدائش کے وقت نہ صرف ہم وطن تھے ،بلکہ دونوں ہی کا تعلق مسلمان گھرانوں سےبھی تھا، لیکن 1931ء میں پیدا ہونے والے بچّے نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاستِ پاکستان کے سب سے بڑے اور ازلی دشمن ، بھارت کو مضبوط کیا، ایٹمی طاقت بنایا، تواُس کے صلے میں صدارت ، پدم بھوشن جیسے کئی قومی اعزازات حاصل کیے، جب کہ 1936ء میں پیدا ہونے والے بچّے کو، جس نے تمام تر نا مساعد حالات، اَن گنت مشکلات، کٹھنائیوں، رکاوٹوں اور انتہائی محدود وسائل میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر، اس کا دفاع نا قابلِ تسخیر بنایا، بعد ازاں نظر بندی، الزامات، ذہنی کوفت اور سخت تناؤ جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
یقیناً آپ میں سے بہت سے لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کن دوشخصیات کی بات کر رہےہیں۔ تو آئیے، دونوں سائنس دانوں کے اوراقِ زیست کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں، بھارت کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس دان،ابو الفاخر زین العابدین عبدالکلام (اے پی جے عبد الکلام) کی، جو 15 اکتوبر 1931ء کو بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق ایک متوسّط خاندان سے تھا۔ وہ بھارت کے 11 ویں صدر اور اس منصب پر پہنچنے والے تیسرے مسلمان تھے۔ان کا انتقال، 2015ء میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ڈاکٹر عبدالکلام نے 1974ء میں بھارت کے پہلے ایٹم بم کاتجربہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’میزائل مین‘ ‘بھی کہا جا تا ہے۔
انہیں 18 جولائی 2002ء کو 90 فی صد اکثریت سے صدر منتخب کیاگیااور پھر انتقال کے بعد نہ صرف بھر پورقومی اعزازات کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا،بلکہ آج بھی اُنہیں یاد کرکے عوام کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ بچّے بچّے کی زبان پر ڈاکٹر اے پی جے کا نام ہےاور وہ قومی ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کو اس لیے اس قدرشان دار انداز اور سرکاری اعزازات کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا کہ وہ بھارت کے صدر تھے، یقیناً یہ دُرست ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ اس منصب پر پہنچے ہی اس وجہ سے تھے کہ انہوں نے اپنے مُلک کو ایٹمی طاقت بنایا ۔دوسری جانب، اگر وطنِ عزیز کی بات کی جائےتو یہ دیکھ کر حد درجہ قدر افسوس ہوتا اوردل خون کے آنسو روتا ہے کہ آہ!!ہم نے اپنے قومی ہیرو، محسنِ پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
وطنِ عزیز کو جوہری طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے ، 150سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین لکھنے والے،فخرِ پاکستان، ڈاکٹر عبد القدیر خان یکم اپریل 1936ءکو متّحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں(موجودہ مدھیہ پردیش کا دارالحکومت)ایک متوسّط گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسکول ٹیچر، عبدالغفور کے گھر پیدا ہوئے۔
اے کیو خان نے انتہائی مذہبی ماحول میں تربیت حاصل کی کہ اُن کی والدہ، زلیخا مذہبی سوچ کی حامل تھیں اور گھریلو خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ محلّے کے بچّوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اے کیو خان کی شخصیت اور باتوں میں مذہب سے لگاؤ صاف نظر آتا تھا۔گوکہ ڈاکٹر قدیر کے والدین بھوپال میں سکونت پذیر تھے، لیکن ان کےآباؤاجدادکا تعلق اورک زئی قبیلے سے تھا، اس لحاظ سے وہ پٹھان تھے۔ابتدائی تعلیم بھوپال ہی سے حاصل کی اوروہاں کے ایک مقامی اسکول سے میٹرک کرکے 1952ء میں سولہ برس کی عُمر میں اہلِ خانہ کے ساتھ پاکستان آگئے۔
یہاں ان کے والدین نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور ایک نئے سِرے سے زندگی کا آغاز کیا، ڈاکٹر عبد القدیر خان کے والد ، عبد الغفور نے وزارتِ تعلیم میں بھی خدمات انجام دیں۔ ہجرت کے بعد اے کیو خان نےڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا اور بعد ازاں 1956ء میں جامعہ کراچی سے طبیعات (فزکس) میں گریجویشن کیا۔ نیز، اسی سال کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)میںبطور ’’Weights & Measure‘‘ انسپکٹر ملازمت اختیار کرلی اور 1959ء تک وہیں کام کرتے رہے۔
بعد ازاں، 1961ء میں میٹیریل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی ٹیکنیکل یونی وَرسٹی میں داخلہ لیا ، جہاں میٹلر جی کے کورسز پڑھے ، مگر 1965ء میں نیدرلینڈ کی ڈویلفٹ یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تبادلہ کروالیا اور وہاں سے 1967ء میں میٹریل ٹیکنالوجی میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن ان کا تعلیمی سفر یہاں رُکا نہیں کہ انہوں نے جلد بیلجیئم کی ایک یونی وَرسٹی کے پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لے لیااور 1972ء میں میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند حاصل کر کے،اسی سال فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری میں شمولیت اختیار کرلی ۔ یہ کمپنی یورینکو گروپ کی سب کنٹریکٹر تھی۔ خیال رہے، یہ گروپ دنیا کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاوَر پروڈیوسرز میں سے ایک تھی۔
ان کا ایک نیوکلیئر این رِچ مینٹ پلانٹ نیدرلینڈ میں بھی قائم تھااور ڈاکٹر اے کیو جس کمپنی میں کام کرتے تھے، اس کا کام نیوکلیئر ایندھن فراہم کرنا تھا۔ اس طرح ڈاکٹر اے کیو خان کی ٹیم کا کام زمین سے نکلے یورنیم میں ایٹمی طاقت پیدا کرنا تھا۔یاد رہے، 71ء میں سقوطِ ڈھاکا دل خراش سانحہ پیش آچُکا تھا، جس پر پوری پاکستانی قوم سخت رنجیدہ تھی۔ دوسری جانب، بھارت نے 74ء میں کام یاب ایٹمی دھماکے بھی کردئیےتھے، جس سے پاکستان پر خطرے کے بادل مزید گہرے ہوتے دکھائی دے رہے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم، اندرا گاندھی مسلسل ایسے بیانات دے رہی تھیں، جن سے ان کے ارادوں کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کے مستقبل کے لیےمستقل سوچ بچار کررہےتھےاور خاصے، فکر مند تھے۔ وہ ہر صُورت دفاعِ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانا چاہتے تھے۔پاکستان سے محبّت ان کی رگ و پے میں سرایت کیےہوئے تھی۔وہ دشمن کے عزائم سے آگاہ تھےاور کسی صلے اور ستائش کی تمنّا کے بغیر وطن کے لیے کچھ کر دکھانے کا خواب دیکھنے لگےتھے، جوانہیں راتوں کوسونے نہیں دیتا تھا،وہ اس مُلک کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے، تاکہ مُلک کا دفاع یقینی بنایا جا سکے۔
ذرا سوچیں کہ ایک ایسا شخص جو یورپ میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کی فیملی وہاں سیٹل ہے۔ ایک شان دار ،تاب ناک مستقبل جس کا منتظر ہے، وہ سات سمندر پار عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے بجائے صرف اپنے مُلک و ملّت کے بارے میں سوچ رہاہے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر اے کیو خان نےوزیر اعظم پاکستان ذوالفقار بھٹو کو ایک خط لکھا اور اپنی خدمات پیش کرنے کی اجازت چاہی اور یوںوہ ایک خط پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد بنا۔
31 مئی 1976 کو اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایماء پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیےکام کا آغاز کیا گیا۔ بعدازاں، صدر ضیا الحق نے اس ریسرچ سینٹر کا نام تبدیل کرکے ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ سینٹر ‘‘رکھ دیا۔ محسنِ پاکستان نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ، محض 8سال کی مختصر مدّت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرکے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔
اس حیرت میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا، جب 1998 ءمیں پاکستان نے بلوچستان کے شہر چاغی میں کام یاب ایٹمی تجربات کیے۔ ویسے ایک بات تو بہر حال ماننی پڑے گی کہ ایٹمی پروگرام کے ضمن میں شدید بین الاقوامی دباؤ، متضاد نظریات ، سیاسی اختلافات کے با وجود ہر دَور کے حکم رانوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا شروع کیا ہوا ایٹمی پروگرام آگے بڑھایا، عالمی طاقتوں کے شدید دبائو کے باوجود یہ عمل نہ صرف جاری رہا، بلکہ آج تک جان سے بڑھ کراس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔
خیر، ہمیں یہ ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بانیانِ پاکستان کے بعد اگر کسی نے اس مُلک پر سب سے بڑا احسان کیا، تو وہ ڈاکٹر اے کیو خان ہی تھےکہ اُن ہی کی وجہ سے آج اس مُلک کا دفاع مضبوط ہے، اُن ہی کی وجہ سے دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا۔یاد رہے،ان کی خدمات ہی کے اعتراف میں انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1989ء میں ہلالِ امتیاز، 96ءاور 99ء میں پاکستان کے سب سے بڑےسوِل امتیاز،نشانِ امتیاز سے نوازا گیا اور وہ دو مرتبہ نشانِ امتیاز حاصل کرنے والے واحد پاکستانی ہیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر ،جارج ٹینٹ نے اے کیو خان کو اسامہ بن لادن جتنا خطرناک قرار دیا تھا۔ذرا سوچیں کہ اس نے ایسا کیوں کہا، یہ سمجھنا ہر گز مشکل نہیں کہ مغرب پاکستان کی ترقّی، مضبوطی، استحکام ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ ہر صُورت ہمیں بد نام، ہمارے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ ثابت کرنا چاہتا تھا اور اب بھی نقصان پہنچانے کے دَر پے ہے۔ مغرب کے لیے یہ قابلِ قبول ہی نہیں ، بلکہ باعثِ شرم اور مقامِ حیرت ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک پاکستانی نےانہی کی لیبارٹری سے ایٹمی فارمولا اپنے مُلک پہنچادیا اور ایٹم بم بنا کر مُلک کا دفاع مستحکم کیا۔
ورنہ تصوّر تو کریں کہ 14اگست کے بعد اگر 28مئی ہماری تاریخ کا حصّہ نہ ہوتی ،تو پاکستان کا کیا حال ہوتا۔ لیکن… ہم نے اپنے محسن، ایک قومی ہیرو کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا، وہ ڈاکٹر قدیر خان کی آنکھوں میں نظر آتا،ان کے الفاظ سے جھلکتا تھا۔ جس شخص نےہمارا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے یورپ میں اپنا مستقبل قربان کر دیا۔ پُرکشش غیر ملکی نوکری چھوڑی،آرام دہ زندگی کو خیرباد کہا، یہاں سہولتوں کی عدم دست یابی کے باوجود دل چھوٹا نہ کیا۔افسر شاہی،جس کا عزم متزلزل نہ کر سکی۔کم معاوضہ جس کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا۔
کردار کُشی جس کے قدم نہ روک سکی،اُسی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم نے گھر تک محدود کر دیا۔جس مُلک کی خاطر انہوں نے اپنی جان، عزّت داؤ پر لگا کر ایٹمی فارمولے کاپتا لگایا،جس مُلک کی حفاظت کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی،دن کے 18، 18 گھنٹے کام کیا، انہی کی آزادانہ نقل و حرکت پرپابندیاں عاید کر دی گئیں، یہ کیسی سیکیوریٹی تھی کہ چند قدم دُور رہائش پذیر ان کی بیٹی کو باپ سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ ان کے بہن، بھائیوں، رشتے داروں کا گھر میں داخلہ ممنوع تھا۔
کس قدر دُکھ اور شرمندگی کی بات ہے کہ جس شخص نے پوری دنیا میں ہمارے لیے عزّت کے دروازے کھولے ،اسی شخص پر ہم نے آزادی کا دروازہ بند کر دیا۔جس شخص کی وجہ سے ہم دنیا میں سر اُٹھا کر چلتے ہیں، جس شخص کی محنتوں کا ثمر(ایٹم بم) ہمارا فخر ہے، اُسی شخص کوپوری قوم کے سامنے رسوا کیاگیا۔ ہمیں ہر بات، ہر موقعے ، ہر چیز میں بھارت سے مقابلہ کرنے کی عادت ہے، تو دیکھیں کہ کیسے بھارت نے اپنے ایٹمی سائنس دان کو سر کا تاج بنایا، کیسے بچّہ بچّہ ان کے کارناموں سے واقف ہے اور ہمارا محسن آخری دَم تک پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ لیتا رہا۔
چلیں، ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی جان کو خطرہ تھا،اسی لیے یہ سارے اقدامات کیے گئے، تو ان کے انتقال کے بعد کیا ہوا؟ کہنے کو تو ڈاکٹر اے کیو خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سُپردِ خاک کیا گیا، لیکن بھلا یہ بھی کوئی سرکاری اعزاز ہوتا ہےکہ جس میں سرکار کی اعلیٰ قیادت ہی نے شرکت نہ کی؟
ایک ہی شہر میں موجود ہوتے ہوئے ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ سوائے وزیر اعلیٰ سندھ ، مراد علی شاہ (کراچی سے اسلام آباد گئے)کے اور کوئی ان کے جنا زے میں شریک ہی نہ ہو سکا۔پہلے کہا جاتا تھا کہ ’’ہم مُردہ پرست قوم ہیں‘‘، لیکن ڈاکٹر اے کیو خان کے معاملے میں تو یہ کہاوت بھی صادق نہیں آتی کہ اُن کے جنازے میں تو مُلک کے ’’بڑوں‘‘ نے اخلاقاً بھی شرکت کی زحمت گوارا نہ کی۔ اور ریاست کے بڑوں کی کیا بات کی جائے،بھٹّو کے نام پر سیاست کرنے والی پی پی پی،ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر سجانے والی مسلم لیگ (نون )، جماعتِ اسلامی کسی ایک بھی جماعت کے سربراہ کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ محسنِ پاکستان کے جنازے میں شرکت کرلیتا۔ مگر یاد رکھیں کہ اللہ بڑا منصف ہے، جس طرح ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے روز بے موسم شدید برسات ہوئی ، آسماں نے شبنم افشانی کی ، اس کا گواہ پورا پاکستان ہے اور شدید بارش کے با وجود پاکستانی عوام نے جس بڑی تعداد میں ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی ،اپنے ہیرو کو الوداع کیا وہ بھی پاکستا ن کی تاریخ میں تا دیر یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر اے کیو تو چلے گئے، لیکن اپنے پیچھے ایک بڑی ٹیم چھوڑ گئے، جو ان کے بعد اُن کی میراث آگے بڑھا رہی ہے: ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری
’’ڈاکٹر عبد القدیر خان کو آپ نے کیسا پایا اور ان کے ساتھ روا سلوک دیکھ کر کیا کوئی بچّہ ’’اے کیو خان‘‘ بننا چاہے گا؟‘‘ہم نے پوچھا تو بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی، حیاتیاتی علوم، جامعہ کراچی کے سربراہ، مسلم دنیا کے سب سے بڑے سائنسی ایوارڈ مصطفی پرائز لاریئٹ 2021ء کے فاتح، پروفیسر ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری کچھ یوں گویا ہوئے ’’ڈاکٹر اے کیو خان، صرف ایک ایٹمی سائنس دان ہی نہیں، ایک محبّ ِ وطن پاکستانی بھی تھے۔
وہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے حصّے میں پاکستانیوں کی جو محبّت اور خلوص آیا وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ مَیں سرکو گزشتہ دس، پندرہ برس سے جانتا تھا، گوکہ ہمارے شعبے الگ تھے ،لیکن سائنس دان ہونے کے ناتے وہ مجھ سے بے حد شفقت سے پیش آتے، مَیں بھی انہیں اپنا بزرگ ہی سمجھتا تھا۔ اُن کے بارے میں کیا کہوں کہ ایسے لوگ ’’لاٹری‘‘ میں نکلتے ہیں کہ ہمارے سِسٹم میں تو اتنی طاقت ہی نہیں کہ ڈاکٹر اے کیو خان کے پائے کے لوگ پیدا کر سکے۔
ہمارا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کا بجٹ، سنگاپور کی ایک یونی وَرسٹی کے بجٹ کا بھی نصف ہے، تو ایسے میں معجزاتی طور ہی پر کوئی ’’ڈاکٹر اے کیو خان‘‘ بنتا ہے ۔خیر، سر کی زندگی کے کئی پہلو تھے، وہ مذہب سے بھی خاصا لگاؤ رکھتے تھے، وطن کی محبّت تو ان کی نس نس میں سمائی ہوئی تھی اوراس قدر ذہین و فطین ہونے کے باوجود انتہائی سادہ طبع تھے۔ نمود و نمائش ، غرور تو جیسے ان کی ذات کو چُھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس قدر دُور اندیش تھے کہ جب انہوں نے ایٹم بم بنانے کے کام کا آغاز کیا تو ساتھ ہی قریباً 15000 لوگوں کی تربیت بھی شروع کر دی کہ بعد میں انہی لوگوں نے معاملات سنبھالنے تھے، 75ء میں خاموشی سے اُن لوگوں کو تعلیم و تربیت کے لیےباہر بھجوایاتاکہ پاکستان کسی بھی حوالے سے پیچھے نہ رہے۔
ڈاکٹر اے کیو تو چلے گئے، لیکن ایک باپ کی طرح اپنے پیچھے ایک بہت بڑی ٹیم چھوڑ گئے، جو ان کے بعد اُن کی میراث آگے بڑھا رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وسیع النّظری دیکھیے کہ انہوں نے نہ صرف حال، بلکہ مستقبل کے لیے بھی اقدامات کیے۔ ڈاکٹر قدیر کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا تھا، جنہیں عُہدوں کی طلب نہیں ہوتی، وہ کسی اعزاز کے محتاج نہیں تھےکہ وہ تو عوام کے دِلوں پر صدارت کرتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے ہمیں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ ملا، لیکن ہم ان کی خدمات کا حق ادا نہ کر سکے: ڈاکٹر محمّد علی شیخ
ڈاکٹر اے کیو خان کےحوالے سے محقّق، کئی کتابوں کے مصنّف اور سابق وائس چانسلر، سندھ مدرستہ الاسلام یونی وَرسٹی، ڈاکٹر محمّد علی شیخ کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر اے کیو خان میرے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے کہ میرا شعبہ بھی میٹلرجی ہے اور ان کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا، تو جب مَیں طالبِ علم تھا تو انہیں آئیڈیلائز کرتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی تو ہم سب کے لیے مثالی ہے کہ ان کا تعلق ایک متوسّط گھرانے سے تھا، انہوں نے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے بل بوتے پر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک گئے، بعد ازاں وہیں ملازمت حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہوگئے، لیکن جب مُلک کو ضرورت پڑی تو، دھرتی کا بیٹا واپس لَوٹ آیا۔
عیش و آرام، سہولتوں بھری آسان زندگی کسے بُری لگتی ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی خاطر ہر آسائش کی قربانی دے دی۔ انہی کی وجہ سے ہم ایٹمی طاقت بنے، انہی کی مصنوعہ(ایٹم بم) نے ہمیں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ دیا، دشمنوں کا منہ بند کیا، لیکن میرے خیال میں ہم نے ان کے ساتھ نا مناسب رویّہ اختیار کیا۔
قومی سطح پر تو انہیں بے حد پیا ر و محبّت اور عزّت ملی کہ جس دن اُن کا انتقال ہوا ،مَیں اسلام آباد ہی میں تھااور مَیں نے دیکھا کہ فیصل مسجد میں 4 کلو میٹر تک لوگوں کا جمِ غفیر تھا، عوام نے بڑی تعداد میں اپنے ہیرو کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی، لیکن حکومتی سطح پرانتہائی نا مناسب رویّہ اختیار کیا گیا۔
میرا خیال ہے کہ اس موقعے پر وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز ، وفاقی وزراوغیرہ کو نہ صرف نمازِ جنازہ میں شرکت کرنی چاہیے تھی، بلکہ ان کی زندگی میں بھی اُنہیں وہی عزّت و احترام ملنا چاہیے تھا، جس کے وہ حق دار تھے۔ یاد رکھیں، اگر حکومتیں ڈاکٹر اے کیو کو عزّت دیتیں، تو خود انہی کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ جہاں تک نسلِ نو کی بات ہے، تو نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ’’بڑا آدمی‘‘ رُتبے سے نہیں، کام سے بنتا ہے۔
ڈاکٹر اے کیوخان نےجس مُلک و قوم سے بے لوث محبّت کی ، آسائشوں کی قربانیاں دیں، وہاں کے عوام نے اُنہیں شان دار اندازمیں الوداع کہا اور وہ ان کے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔