سوشل سائنسز اس حقیقت کی مکمل تصدیق کرتی ہیں کہ کسی بھی ملک، معاشرے کے اقتصادی و سیاسی و سماجی استحکام و ترقی اور زوال وپسماندگی کا گہرا تعلق اس کےسماجی رویے کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماجی رویے کی تشکیل کے محرکات کیا ہیں؟ کیفیت جو بھی ہو یہ کس طرح بنتی اور تبدیل ہوتی ہے؟ جواب کوئی راز کی بات نہیں، گلی محلوں اور گائوں، دیہات کے سماجی تعلقات، امور و انتظامات سے لے کر ریاستی نظام اور اس کے اداروں (پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ)کے باہمی تعلقات اور انفرادی رویوں تک کا گہرا تعلق ملکی مجموعی نظام تعلیم سے اتنا ہی گہرا ہے جتنا سماجی رویے ملکی سیاسی و اقتصادی و سماجی حالت کو متاثر کرتے ہیں اور اسی کی پیداوار ہوتے ہیں۔
پاکستان آج جو بھی کچھ ہے، جتنا اچھا برا، جتنا کمزور اور مستحکم ہماری موجود مجموعی قومی حالت کی تشکیل ہمارے اجتماعی سماجی رویے اور اس میں اتار چڑھائو کی کیفیت سے ہی ہے۔ ہمارے کمال اور زوال اسی سے چپکے ہوئے ہیں جیسے ہمارا معاشرتی رویہ موجود گنجلک اور بیمار نظام تعلیم ہے۔ اس میں جتنی اور جیسی تبدیلی آتی رہتی ہے اس کا اثر ہمارے سماجی رویے پر پڑتا ہوا چند سال میں قومی سطح سے لے کر گراس لیول تک یعنی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نظام سے لے کر قومی خزانے حتیٰ کہ خارجہ و دفاع وسلامتی کے امور و حالت پر پڑنے لگتا ہے۔ بہتر ہوتو بہتر اور بدتر ہو تو بدتر۔ متضاد ہو تو کنفیوژڈ۔ مطلوب توآئیڈیل ہوتا ہے لیکن جتنے فیصد مطلوب کا حاصل ہوگا متعلقہ سائنس ثابت کرتی ہے کہ اسی تناسب سے سماجی رویہ مثبت یا منفی طور پر متاثر ہوگا جو قومی سیاست و اقتصادیات اور پورے سماج کو بمطابق متاثر کرے گا۔ گویا ہمیں جو ریاست اور اس کے جیسے شہری مطلوب ہیں اس کے لئے مخصوص طرز و کیفیت کا سماجی رویہ تشکیل دینا لازم ہے، جو مخصوص و مطلوب نظام تعلیم کے لئے طریق اور معیار کی تبدیلی کرکے نئے نظام تعلیم کے مقررہ اہداف حاصل کرکے ہی ممکن ہے۔ یہ درست ہے کہ ماں (خصوصاً) باپ اور گھر کا ابلاغ، اساتذہ کا مخصوص پیشہ ورانہ ابلاغ مسلسل اور اب تو ان سب کا باپ کہیں تو آمریت زدہ اور محدود و محتاط پیشہ ورانہ کھلا ڈلا فری اسٹائل سوشل میڈیا سبھی وہ ذرائع ابلاغ ہیں جو نومولود بچے کی پیدائش سے تادم مرگ ایک فرد کی شخصیت سازی اور رویے کو متاثر کرتے ہوئےسماجی رویے کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کمیونیکیشن سائنس کا دو جمع دو:چار جتنا سچ، علم یہ ہے کہ ’’ابلاغ‘‘ (کمیونیکیشن) وہ شرف انسانی ہے جس کا درست اور غلط استعمال، مثبت و منفی، شدت سے مطلوب و غیر مطلوب سماجی رویوں کی تشکیل کا ذریعہ ہے۔ ابلاغیات کے طالب علم ہونے کے ناطے ناچیز کا یقین ہے کہ جدید دور میں اس کی حقیقت آج کے انسانی تہذیبی عمل میں یوں آشکار ہوکر نیا اضافی علم بن گئی ہے کہ ماں، اسکول اور میڈیا (خصوصاً سوشل) وہ ذرائع ابلاغ ہیں جو کسی بھی معاشرے میں سماجی رویوں کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں یہ ذہن نشیں رہے کہ ماں، اسکول اور میڈیا کے اپنے مجموعی رویے ملکی نظام تعلیم سے بہت بلند درجے پر متاثر ہیں۔گزشتہ بیس پچیس سال میں ہمارے رویوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ آج کے موجود مکمل پاکستانی سماجی رویے میں ڈھلی اہل فکر و دانش کی شدت سے توجہ کی طالب ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے منتخب حکومتوں اور پارلیمانی قوتوں نے جمہوریت کی علمبردار جماعتوں کے ہاتھوں آئین مسخ کرنے کا رونا دھونا ختم کرکے مرضی کے مطابق آئین کا حلیہ تو درست کردیا لیکن سماجی رویہ گنجلک پیچیدہ تضادات اور بیمار تو پہلے ہی چلا آ رہا تھا، اب تشویشناک ہوتا، پُرخطر بھی ہوگیا۔ گزرے جمہوری عشرے، جو منتخب حکومتوں کا ہی عشرہ تھا، جس میں آئین کاحلیہ بھی درست ہوگیا تھا، سیالکوٹ میں اس خطرناک سماجی رویے کی قومی نیندیں اجاڑنے والی حرکت اور پاکستانی سماج کو سہما دینے والے ایک سانحے نے پاکستان کو عالمی معاشرے میں ہمارے لئے فوری توجہ کا ایک سوال بنا دیا تھا۔ لیکن حکومتوں نے کچھ کیا نہ معاشرے نے کہ جیسے یہ رویہ توجہ دینے والا نہیں تھا۔ ہاں انتخاب ہوا تو تبدیلی آگئی، لیکن آکر بھی نہیں آئی، ساڑھے تین برس گزر گئے اس تبدیلی کو آئے، اسٹیٹس کو اپنی طاقت سے جامد ہے۔ اب سیالکوٹ میں تبدیلی عشرے کے آغاز پر سانحہ سیالکوٹ دوم ہوگیا۔ اس کی حساسیت اور اُس کے پُرخطرہونے پر تو بہت بات ہو رہی ہے، وقتی قومی شرمندگی بھی کم نہیں، پڑنے والے جملہ اثرات بھی واضح ہیں۔ بیمار سماجی رویے کا کینسر فیکٹری کے کام چور مزدوروں یا خلاف اسلام مذہبی جنونیت میں مبتلا کئے گئے مزدوروں تک محدود نہیں۔ پیچھے تعلیم یافتہ اور عدلیہ کو بھی قانون بتانے اور سمجھانے والے وکلا بھی نہیں، جو مرضی کے خلاف فیصلہ دینے والے ججز کے احتساب کا عشرہ مکمل کرنے کو ہیں۔ تازہ ترین مثال منڈی بہائو الدین کیس ہے۔ عدلیہ کے منصفین تو کیا وہ تو لاہور کے ادارہ امراض قلب میں بھی ڈاکٹروں کو سبق سکھانے چڑھ دوڑے تھے۔ ۔ جرنیلوں، ججز پر بات کرتے ذراپر جلتے ہیں، ہم جیسے کمزوروں کا کام نہیں کہ مین اسٹریم میڈیا فارمنگ بھی عجیب ڈھنگ کا ہے، طلبا سے تو ویسے ہی ڈر لگتا ہے۔ان سب کا رویہ مطلوب کے مطابق تشکیل دینے والے ذمے دار اساتذہ کیا کم ہیں جن کی بڑی تعداد کالجوں یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم کو طلبہ کے لئے ناجائز پریشر اور اپنے لئے قابل گرفت اتھارٹی بنا چکے ہیں، لیکن کوئی گرفت نہیں،
طبقاتی نظام تعلیم موجودہ تبدیلی حکومت کی اصلاحات نافذ ہونے کے بعد جوں کا توں موجود ہے، تعلیم بدستور بجٹ ترجیح میں بہت پیچھے۔ ماننا پڑے گا مشرف دور میں ہائر ایجوکیشن میں سمسٹر سسٹم کے اندھا دھند نفاذ کے علاوہ جو بڑی معیاری اور نتیجہ خیز تبدیلیاں آئی تھیں اور جس طرح بجٹ میں فراخدلی سے تعلیم کی ترجیح کو اوپر لایاگیا تھا، سب ریورس ہو چکا۔ آئین کا حلیہ درست ہونے کے بعد انتہائی بھونڈے اور غیر منطقی فیصلے میں سندھ حکومت کی تقلید کرتے سب ہی صوبائی حکومتوں نے پبلک یونیورسٹیوں کا علمی و انتظامی خود مختاری کا نظام صوبائی بیورو کریسی کے سپرد کرکے شدت سے مطلوب اکیڈیمک فریڈم اور اس کے انتظام کو بری طرح متاثر کیا۔ منی لانڈری کے اربوں کھربوں کے ملزموں کا احتساب تو نہ ہوا، وائس چانسلروں اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر اسیر کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر 10 سال میں شدت سے مطلوب سماجی تبدیلی کا پراسس شروع ہونے کا ضامن اور دور رس نتائج کا حامل صحت مند، معیاری، سائنٹیفک پرائمری نظام پبلک سیکٹر میں ایٹ لارج پسماندگی اور پرائیویٹ مکمل کمرشل ازم میں مبتلا اپنے دور رس منفی نتائج دے رہا ہے۔