اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر منﷲ نے کہا ہے کہ اگر ہم آڈیو تحقیقات کی درخواست قابل سماعت بھی قراردیں تو کیا ہوگا؟آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے ،کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں،معاملے پر کمیشن تو اس وقت بنے جب کوئی گراؤنڈ ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل درخواست کے قابل سماعت ہونے پر عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہوئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من ﷲ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ عدالت تحقیقات کے لیے کس کو ہدایات جاری کرے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے، یوں لگتا ہے یہ پراکسی درخواست ہے جو دائر کی گئی، ایسا تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ درخواست گزار کسی اور کا کیس لڑرہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کبھی کبھی ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی اور استعمال کررہا ہے، یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے، کبھی کوئی آڈیو، کبھی کوئی بنایا گیا ڈاکومنٹ ریلیز کیا جاتا ہے، درخواست گزار نے2017 کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔
درخواست گزار سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل حکومت سے کہہ ماضی کا جو احتساب کرنا ہے کرلیں، اس کیس سے ماضی کے کیسز جوڑنے کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے؟ بیان حلفی کا کیس اسی عدالت میں زیرالتوا ہے، آڈیو لیک معاملہ بھی قابل سماعت ہوسکتا ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین نے کہا کہ عدالتوں کو متنازع کیا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کرا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے، توجہ ہٹانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ثاقب نثار کی آڈیو کسی مستند ذریعے سے آئی؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں وہ آڈیو مستند ہے؟آپ کیلئے میں نے بھی کچھ تیار کرکے رکھا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے خلاف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کی کاپیاں دکھاتے ہوئے کہا کہ میری تصویر پھیلائی جاتی ہے کہ یہ کسی نون لیگی کیساتھ باہر پھر رہے ہیں، کیا اب اس پر تحقیقات کرانے لگیں؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ایک سزا کیخلاف اپیل چل رہی ہے جس کیلئے عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، صرف ایک کیس کے لیے یہ پراکسی وار لڑی جارہی ہے، ماضی کے تمام معاملات بھی بحث کیلئے پارلیمنٹ بھجوا دیں۔
جس پر درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ جن کے کیسز ہیں وہ عدالت نہیں آئے، میرا موقف یہ ہے عدالتوں کو متنازعہ کیا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کرا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بریف کیس بھر کر بھی دیے جاتے رہے ہیں، درخواست گزار کو ماضی میں جانا ہے تو درخواست میں ترمیم کریں، کیوں صرف 2017 میں جائیں، ذوالفقار علی بھٹو تک جاتے ہیں، جلاوطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعظم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں؟
خالد جاوید خان نے یہ بھی کہا کہ پتہ لگنا چاہیے کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟ رقم سے بھرے سوٹ کیس کسے جاتے رہے؟ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کرلیتے ہیں، صرف چن کر ایک وزیراعظم کیلئے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ان کی کوئی وڈیو نہیں آئی، سینکڑوں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ ہوجاتا ہے اس کی کوئی وڈیو نہیں آئی، یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کیلئے بار بار وڈیوز آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وکلا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں پھر مذمت جاری کردی جاتی ہے، بار نے ہی سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکر چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے۔
چیف جسٹس اطہرمن ﷲ نے کہا کہ بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے، وہ بیان حلفی دینے والے خود عدالت آئے ہیں، آپ جس آڈیو کی بات کررہے ہیں اس پر آپ کو بھی یقین نہیں کہ ٹھیک ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن ﷲ نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر بھی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل جاری رہیں گے۔