سانحہ سیالکوٹ پر پوری قوم افسردہ ہے ، ہر کسی نے مذمت کی، ملک کے بڑے علمائے کرام نے بھی اس واقعہ کو خلافِ اسلام قرار دیا۔ پوری قوم نے شرمندگی کا اظہار بھی کیا ۔ سب متفق ہیں کہ کسی فرد یا گروہ کو اجازت نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے، خود ہی الزام لگائے اور سزا سنا کر کسی بھی انسان کو مار دے۔
یہ حق صرف اور صرف ریاست کا ہے۔ اس اتفاق کے باوجود نجانے کہاں سے ایک طبقہ اُٹھتا ہے اور کہنا شروع کو دیتا ہے کہ توہین مذہب کے قانون (Blasphemy Law) کو ختم کیا جائے۔
یہ مطالبہ کہاں سے آ گیا؟ اس کا سیالکوٹ واقعہ سے کیا تعلق؟ کیا توہین مذہب کا قانون کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں ایسے قانون کی کوئی گنجائش ہی نہیں؟ اسلام اور اس قانون کے بارے میں تو علماء کرام بات کریں گے لیکن میں حیران ہوں کہ ایک سانحہ ہوا اور اُسے اپنی مرضی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کیسے چالاکی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ وہی طبقہ ہے جو Free Speech یا آزادی رائے کے نام پر توہین مذہب جیسے شر کو بھی جائز سمجھتا ہے۔ امریکا و یورپ تو پاکستان پر کافی عرصہ سے دبائو ڈال رہے ہیں کہ توہین مذہب کے قانون کو ختم کیا جائے۔
اس سلسلے میں امریکی رینڈ کارپوریشن اور ایسی کئی مغربی تنظیمیں اور این جی اوزبہت کام کر رہی ہیں تاکہ امریکا و یورپ کی مرضی اور پسند کے اسلام کو دنیا بھر میں فروغ دیا جائے۔ نہیں معلوم کیوں ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ بغیر سوچے سمجھے یہ بات کر رہا ہے۔
سیالکوٹ واقعہ کا توہین مذہب کے قانون سے کیا لینا دینا؟ کیا اس قانون میں کہیں لکھا ہے کہ کوئی ہجوم ، کوئی فرد کسی بھی فرد پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اُسے مار ڈالے؟؟ یہ قانون تو یہ ذمہ داری ریاست کو دیتا ہے۔ عجیب لاجک ہے! اگر کوئی ناحق قتل ہو رہا ہے تو کیا قاتل کو سزا دینے والا قانون ہی ختم کر دیا جائے؟ مسلمان تو سراپا احتجاج ہیں کہ مغرب میں آئے دن اسلام مخالف گستاخانہ عمل کیے جاتے اور ایسے واقعات کا Free Speech کے نام پر دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان بالعموم اور پاکستان اور اس کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بالخصوص مغرب سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مغرب میں اسلامو فوبیا پر قابو پایا جائے اور اقوامِ متحدہ کے تحت ایک بین الاقوامی قانون یا کنونشن منظور کیا جائے جس کے تحت اسلاموفوبیا یا اسلام سمیت کسی بھی مذہب یا مذہبی ہستی کی گستاخی کرنے کو جرم قرار دیا جائے ۔
جب ہم مغرب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسلام مخالف گستاخانہ عمل کو روکے کیوں کہ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید دکھ اور تکلیف ہوتی ہے تو ایسے میںیہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے ہی عمل کو ہم یہاں جرم ماننے سے انکار کر دیں۔
یہاں تو سیاسی بنیادوں پر لوگوں کے درمیان اتنی نفرت اور خلیج ہے کہ کسی سیاسی رہنما کے خلاف بات کرنے پر لوگ خون خرابے پر اتر آتے ہیں، اور ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ توہین مذہب کے جرم کو جرم ہی نہ تصور کیا جائے۔ یہ تو شرانگیزی، نفرت اور فساد پھیلانے کا رستہ ہے۔
کجا یہ کہ ہم لوگوں کو سکھائیں، پڑھائیں کہ ایک دوسرے کے مذاہب اور مذہبی ہستیوں کا احترام کریں، قانون ہاتھ میں نہ لیں یہاں توہین مذہب کے قانون کو ہی ختم کرنے کا ایجنڈا چلایا جا رہا ہے۔ یعنی مغرب کی طرح کھلی چھٹی دے دی جائے۔
یہ بھی ایک شدت پسندی ہے جس میں آزادی رائے اور Free Speech کے نام پر مذہبی ہستیوں کی گستاخی کو جائز قرار دینے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکومت کو ایسے شدت پسندوں کو بھی نکیل ڈالنی چاہیے۔
مسلمان مغرب میں ہویا مشرق میں یا وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو، اُسے اپنے دین اور اسلام کی پاک ہستیوں سے بے پناہ پیار ہے بلکہ اُن سے محبت اُس کے ایمان کا حصہ ہے۔
جب بھی کبھی مغرب میں اسلام مخالف گستاخانہ عمل کیا جاتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمان اس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ ہمیں ایسی شرارتوں اور سازشوں کو مغرب میں بھی روکنے کی کوشش کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ ہم بھی اُسی ڈگر پر چل نکلیں جس پر مغرب چل رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)