• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوویڈ۔19 نے دنیا کو تاحال صدمے سے دوچار کیا ہوا ہے۔ محققین، سائنس دانوں اور ماہرین کو اس سے پہلے اتنا حیران اور پریشان نہیں دیکھا گیا۔ اس وبا نے صرف چند مہینوں میں 195 سے زیادہ ممالک کو بیک وقت مفلوج و بے بس کر کے رکھ دیا۔کورونا وائرس نے امیر اور غریب ممالک کو بلا امتیاز تباہ کیا۔ دنیا بھر کی حکومتیں اموات کی شرح اورمعاشی نقصانات، دونوں لحاظ سے کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے تاحال مصروفِ عمل ہیں۔ امریکہ، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بدترین صورتِحال سے گزرے، شاید دوسری جنگ عظیم میں بھی اتنے نقصانات نہیں ہوئے جتنے اس وبا سے ہوئے۔ ترقی پذیر ممالک کورونا پھیلنے کے ابتدائی مرحلے میں یقین اور بے یقینی میں مبتلا رہے جبکہ اگلے مرحلوں میں یہ بے یقینی سلامتی کے حوالے سے درپیش سنگین خطرات میں بدل گئی۔ ابھی گزشتہ کورونا پیریڈ کے اثرات سے بحالی کا سفر جاری تھا کہ اومی کرون نامی نئے ویرینٹ کی شنید نے عالمِ انسانیت کو ایک نئے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگرچہ ویکسی نیشن کا عمل دنیا بھر میں تیزی سے جاری ہے لیکن اس ویرینٹ کی پیش قدمی بھی اسی رفتار سے جاری ہے۔

گورننس کے نقطہ نظر سے، ہم انفرادی سطح پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے واضح طور پرثابت کیا ہے کہ ریاستیں اور حکومتیں افراد سے زیادہ مقدم ہوتی ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ معاشیات کو بچانے کے لئے اجتماعی کوششیں صرف ریاستوں کے ذریعے ہی ہوسکتی ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہی ہیں، افراد کی ذاتی رازداری اور آزادی محدود ہوتی جارہی ہے۔ لوگوں کو گھروں یا قرنطین مراکز کی قیدِ تنہائی میں رکھنا شاید پہلے کی طرح ممکن نہ ہو۔ حکومتوں کے حکم نامے کے تحت ہوائی اڈے، اسکول، کاروبار اور دفاتر بندیا عوامی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں تا کہ عوام الناس کو اس وبائی مرض سے ممکنہ حد تک محفوظ رکھا جا سکے لیکن اس کے باوجود انفرادی سطح پر کورونا کی تباہ کاریوں کو سنجیدگی سے نہ لینے کی روش دیکھی جاتی رہی۔

کورونا وائرس کے بعد جو چیز سب سے نمایاں اور قابلِ ذکر ہوئی وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تھی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پوری دنیا کو کورونا وائرس سے آگاہ کرنے اور اِس سے نمٹنے میں بھرپور مدد فراہم کررہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ احتیاطی تقاضوں کے پیشِ نظر انٹرنیٹ سروسز نے ڈیجیٹل بزنس اور مارکیٹس کو فروغ دیا۔ ڈیجیٹلائزیشن ہمارے اہل خانہ اور پیاروں سے رابطے میں رہنے، دفاتر سے ہمارے تعلق کو قائم رکھنے، کھانے پینے، تفریح اور زندگی کے بہت سے مسائل کے متعلق ہماری معاون ہے۔ آئی ٹی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت لاک ڈائون جیسے حالات میں بھی زندگی کا پہیہ چلاتے رہنا ممکن ہوا۔ یہاں تک کہ اسکولوں کو ویڈیو کانفرنسوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت نئے ویرینٹ کے پھیلائوکے خلاف کوششوں میں ہم آہنگی کے لیے عالمی سطح پر میڈیکل ریسرچ اور تفصیلات شیئر کی جارہی ہیں۔ حتیٰ کہ حکومتیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے کورونا کے بدلتے اطوار کا پتہ لگانے اور ان کا علاج کرنے کے لئے ڈیجیٹل سرویلنس ٹیکنالوجی کی بھی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ آن لائن کاروبار اس تیزی سے ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں جس کی مثال اس سے پیشتر نہیں ملتی۔ایک کے بعد ایک وبائی ویرینٹ آنے کے باعث ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک مستقل حصہ بن جائے گی اور دنیاکو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے گی۔

دنیا بھر میں اب حکومتوں کی توجہ صحت کی نگہداشت کے نظام پر مرکوز ہوگی۔ کورونا نے دنیا بھر میں طبی نگہداشت اور تحقیق میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات کو آشکارکیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انسانیت فوجی ٹیکنالوجی، آلاتِ حرب اور پیسہ کمانے والے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتی رہی ہے، کبھی توقع بھی نہیں تھی کہ انسانیت کو سب سے زیادہ خطرہ طبی سہولیات کے فقدان اور صحت کو درپیش نِت نئے چیلنجز سے ہو سکتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ دنیا کے سب سے امیر ترین شہر یعنی نیو یارک میں زندگی بچانے والی دوائیوں اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہو سکتی ہے۔ برطانیہ، اٹلی اور فرانس جیسے امیر ممالک کو کورونا مریضوں اور ہلاک شدگان کے لیے آئس کریم کی ویگنوں کا استعمال کرنا پڑا۔ ان حالات کے بعدیہ قومیں طبی ساز و سامان اور سہولتوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری شروع کر چکی ہیں۔ انفیکشن اور وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لئے حفظان صحت، طبی تحقیق اور طریقہ کار پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ میڈیسن اور سائنس دنیا کی پہلی ترجیح بن چکے ہیں۔ آج بھی اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او اور سائنسی طور پر ترقی یافتہ ممالک نئے ویریئنٹ کی مدافعتی ادویہ سازی تیار کرنے پر دن رات کام کر رہے ہیں۔مذہب اور ثقافتوں پربھی کورونا نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ رسوم اور عبادات مذہب کا اہم حصہ ہوتی ہیں لیکن، مساجد، گرجا گھروںاور مندروں کو محدود یابند کردیا گیا۔ حتیٰ کہ حج کا سفر بھی معطل رہا۔ ویٹی کن بھی تقریباً خالی رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں، مذہب اور ثقافت کو بھی میڈیکل ریسرچ اور حکومتوں کی طرف سے ضابطے کی ضرورت ہوگی۔ اتحاد اور صبر ہی نئے ویرینٹ کو شکست دینے کا واحد راستہ ہوں گے۔

اس نئی وبا سے نمٹنے کے لئے آمرانہ حکومتی اندازہی بہترین حکمتِ عملی ہوگاکسی بھی طرح کی لاپروائی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ الحمدللہ کورونا کی گزشتہ لہر کے دوران پاکستان خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر میں کم سے کم جانی نقصان کا حامل خوش قسمت ملک ثابت ہوا تھا لیکن ضروری نہیں کہ قسمت ہمیشہ مہربان ہی رہے کسی بھی وبایا مسئلے کے بے قابو ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر سال اسموگ کا سامنا کرنے کے باوجود موسمِ سرما سے پیشتر اس سے نمٹنے کی تیاری نہ کرنے کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے۔تاحال پاکستان اومی کرون سے محفوظ ہے شاید یہ چانس ہے کہ ہم اپنے صحت کے نظام میں موجود خامیوں پر قابو پائیں اور اومی کرون اور آنے والے ادوار کے دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہو جائیں ورنہ معاشی خطرات منڈلاتے رہیں گے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین