کراچی (ٹی وی رپورٹ) اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت چلے ،اپوزیشن کا احتجاج وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے نہیں ہے ،حکومت اس وقت جتنی کمزور پوزیشن میں ہے پہلے کبھی نہیں تھی ،میں اور عمران خان پارلیمنٹ میں نواز شریف سے متعلق سوالات اٹھائیں گے، وزیراعظم کی تقریر سے سات سوالوں کے جواب ملنے کے بجائے 70نئے سوال پیدا ہوگئے، اپوزیشن نے ماضی کے برعکس بالغ نظری دکھاتے ہوئے لڑائی کے بجائے واک آؤٹ کا فیصلہ کیا،وزیراعظم کی جانب سے سوالات کے جواب نہ دینے کی صورت میں پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن کا تھا، واک آؤٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم بھی شامل تھی، اعتزاز احسن پارٹی لائن پر ہی بات کررہے ہیں، چوہدری نثار کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں، بطور لیڈر آف دی اپوزیشن سولو فلائٹ نہیں لینا چاہتا تھا، مشترکہ اپوزیشن کا فائدہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہے، وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ آئینی ہے لیکن ابھی یہ مطالبہ نہیں کررہے ہیں۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ خورشید شاہ نےکہا کہ سیاست میں کرکٹ آگئی ہے اور کرکٹ سیاست کا شکار ہوگئی ہے، نواز شریف بڑی مشکل سے پارلیمنٹ میں آئے ، اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ میں نواز شریف کا خطاب سننے کا فیصلہ کیا تھا، وزیراعظم کی آسانی کیلئے اپوزیشن نے پہلے ہی سوالات دیدیئے تھے، نواز شریف کو اپنی جائیداد سے متعلق ہر بات کا علم ہونا چاہئے، وزیراعظم نے اپوزیشن کے سوالات کا جواب نہیں دیا، اپوزیشن نے پیر کے اجلاس میں ماضی کے برعکس بالغ نظری دکھائی اور لڑائی کے بجائے واک آؤٹ کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر سے سات سوالوں کے جواب ملنے کے بجائے 70نئے سوال پیدا ہوگئے، ایک سوال تو یہ ہے کہ 1971ء میں شریف خاندان ملک سے پیسہ کیسے دبئی لے گیا جبکہ اس وقت اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر پیسہ باہر نہیں جاسکتا تھا، جب اتفاق فاؤنڈری نیشنلائز ہوگئی تھی تو نواز شریف کے پاس 30 ملین درہم کہاں سے آئے، ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ملک کے وسائل پر قابض 22خاندان ختم کردیں گے، اس وقت مشہور بائیس خاندانوں میں شریف خاندان کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا،پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں احتساب کیلئے نیا قانون بنانا چاہتی تھی لیکن نواز شریف نے توجہ نہیں دی۔خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے سوالات کے جواب نہ دینے کی صورت میں پار لیمنٹ سے واک آؤٹ کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن کا تھا، واک آؤٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم بھی شامل تھی، اپوزیشن کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے دو سینیٹرز شریک تھے جنہوں نے واک آؤٹ کے فیصلے کی سپورٹ کی، ایم کیو ایم کو متحدہ اپوزیشن میں واپس لانے کی کوشش کریں گے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میں اور عمران خان پارلیمنٹ میں تقریر کریں گے اور نواز شریف سے متعلق سوالات اٹھائیں گے، تمام پارلیمانی لیڈرز بھی اس پر باری باری بات چیت کریں گے، پاناما لیکس پی ٹی آئی کا نہیں پورے ملک کا معاملہ ہے، عوام کی ترجمانی کرنا اپوزیشن کا کام ہوتا ہے، اپوزیشن کا کمزور ہونا حکومت کیلئے دھچکا ہوگا، جس ملک میں اپوزیشن کمزور ہوجائے وہاں حکومتیں چلتی نہیں ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مجھ سے خوش ہیں تو یہ اللہ کی مہربانی ہے، حکومتی وزراء اعتزاز احسن کو نشانہ بنا کر پیپلز پارٹی میں تقسیم چاہتے ہیں، اعتزاز احسن اور پارٹی کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے، اعتزاز احسن پارٹی لائن پر ہی بات کررہے ہیں، اعتزاز احسن اور میرا تیس سال کا ساتھ ہے ، لوگ کتنی بھی کوشش کرلیں ہم آپس میں نہیں لڑیں گے۔خورشید شاہ نے کہا کہ میں چوہدری نثار کے منہ نہیں لگنا چاہتا ہوں، میں اپوزیشن لیڈر ہوں جبکہ وہ ایک وفاقی وزیر ہے، میرا لیول نہیں ہے کہ اس سے منہ ماری کروں، وفاقی وزیر کو نہیں جچتا کہ فائل لے کر اپوزیشن لیڈر کو بلیک میل کرے، چوہدری نثار کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں، میرے خلاف الزامات چوہدری نثار نہیں حکومت لگارہی ہے، اگر حکومت چوہدری نثار کو نہیں روک رہی تو اس کا مطلب ہے وہ بھی وزیر داخلہ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر متفقہ ٹی او آرز کیلئے کمیٹی بنادیتی تو حالات یہاں تک نہیں پہنچتے، حکومت جب تک کرسی پر بیٹھی ہوتی ہے بڑی پراعتماد ہوتی ہے، طوفان میں بڑے بڑے درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں مگر بعض دفعہ کمزور درخت بچ جاتے ہیں،اس ملک میں کبھی بھی کچھ ہوسکتا ہے، اپوزیشن کا عزم ہے کہ جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دیں گے، رضا ربانی بار بار ہوشیار ہوجاؤ کے نعرے لگارہے ہیں،اپوزیشن کا دباؤ وزیراعظم کو خبردار کررہا ہے کہ مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہم مانتے ہیں وزیراعظم کا نام پاناما لیکس میں نہیں ہے، اپوزیشن کا احتجاج وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے نہیں ہے، حکومت اس وقت جتنی کمزور پوزیشن میں ہے پہلے کبھی نہیں تھی، شریف خاندان اور وفاقی وزیر کے بیانات میں تضادات سب کے سامنے ہیں، تاریخ کو مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے بہت محنت کی ہے، بطور لیڈر آف دی اپوزیشن سولو فلائٹ نہیں لینا چاہتا تھا، مشترکہ اپوزیشن کا فائدہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہے، پی ٹی آئی کی قیادت اپنے نوجوانوں کو اعتماد میں لے، تحریک انصاف کے نوجوان جذبات میں آئیں گے تو انتشار پھیل سکتا ہے، شیریں مزاری نے مجھے دو منٹ کے اندر تقریر ختم کرنے کا کہا تھا۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ خاص تناظر میں کیا تھا، نواز شریف سوالات کے جواب نہیں دیتے تو سیاست کو بچانے کیلئے محفوظ راستہ دیکھنا ہوگا، جمہوریت بچانے کی جتنی ذمہ داری اپوزیشن کی ہے اتنی ہی حکومت کی بھی ہے، بہت سے لوگ نہیں چاہتے ملک میں جمہوریت چلے، جمہوری طاقت کے بل بوتے پر واپس آنے والے سابق چیف جسٹس بھی جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی بات کررہے ہیں، اگر صدارتی نظام آیا تو فیڈریشن کو کوئی نہیں بچاسکے گا۔ خورشید شاہ کا کہنا تھاکہ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ آئینی ہے لیکن ابھی یہ مطالبہ نہیں کررہے ہیں، نواز شریف کو پارلیمنٹ کے اندر معاملات سلجھانے کیلئے موقع دیا ہے، پیپلز پارٹی کی توجہ جمہوریت کو بچانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے وظیفوں نے بڑا کام کیا ہے، موجودہ صورتحال میں ان کی سیاسی لاٹری نکل آئی ہے، مولانا فضل الرحمٰن جہاں نواز شریف کو چاہتے ہیں لے جاتے ہیں اور ہر کا م کروالیتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں پاناما لیکس کا معاملہ مزید آگے چلے تاکہ مزید کام کروالیں۔