آپ کسی معاشرے میں تہذیب کی سطح کا تعین کرنا چاہیں، تو اس کی جانچ کا بہترین پیمانہ اس کے ہجوم کا طرزِ عمل ہے۔پاکستانی ہجوم کے رویے پر غور کریں۔ سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر کے وحشیانہ قتل کے دوران اس رویے کا برملا اظہار دیکھنے میں آیا۔ یہ اتنا گھناؤنا جرم تھا کہ بیان کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ ہمارے ہاں ماضی میں بھی ایسے کئی لرزہ خیز واقعات پیش آئے۔ کسی فرد کی طرف سے کیا جانے والا بھیانک وحشیانہ جرم ایک نوجوان کے ہاتھوں نور مقدم کا قتل بھی تھا۔ کھوکھلے مرد خود کو عورتوں کے لیے اتنا پرکشش سمجھتے ہیں کہ وہ انکار برداشت ہی نہیں کرسکتے۔
نور قتل کیس میں ظاہر جعفر نامی شخص کا خاندان، اس کےماں اور باپ دونوں معروف کاروباری لوگ ہیں، اس لیے اسے یقین ہو گا کہ اسے ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے کیونکہ عام طور تیسری دنیا کی اشرافیہ کو ضمانت مل جاتی ہے۔ والدین کے لیے یہ واقعہ باعث شرم ہے۔ اُنھیں بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر ملوث ہونے پر قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ ظاہر جعفر کوئی ہجوم نہیں تھا لیکن ہمارے معاشرے میں پھیلی بیماری کی علامت ضرور ہے۔ مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں سری لنکا کے فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کے قتل نے مجھے لرزا کررکھ دیا۔ اُس نے فیکٹری سے مبینہ طور پر کچھ مذہبی پوسٹرز ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ جن لوگوں نے اس پر حملہ کیا وہ لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ذاتی عناد رکھتے تھے۔ جلد ہی فیکٹری کے اندر اور باہر مشتعل ہجوم جمع ہوگیاجس نے اس بیچارے منیجر پربہیمانہ تشدد کیا یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔
میرے پاس اِس سانحہ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ سری لنکا نے ہمیشہ پاکستان کا اچھا سوچا لیکن کہنے دیجیے کہ ہم نے سری لنکا کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ کچھ سال پہلے لاہور میں ان کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی اُنھوں نے ہمارا ساتھ دیا۔
کئی سال تک کرکٹ نہ ہونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کا دوبارہ دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا ہم ناشکرے ہیں؟ ہم دوسروں کو شقی القلب قرار دیتے ہیں لیکن کیا رک کر اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت نہیں آگیا؟دنیا کے ہر ملک،اور ہر قسم کی تعلیم رکھنے والی قوم میں جنونی ہجوم موجود ہوتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کا طرز عمل نہیں۔ لیکن بعض مسلمانوں کے رویے سے اس غلط تصور کو تقویت ملتی ہے کہ وہ فطری طور پر جارح ہیں۔ حکومت نے اس وحشیانہ فعل سے پیدا ہونے والے صدمے کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ کس حد تک جا سکتی تھی؟ یہ ہمارے لیے ایک اشارہ ہے کہ ہم رک کر اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں اوراس جنونیتکی وجہ تلاش کریں۔
سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا وہ جہالت اور اس کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ صرف تعلیم سے جہالت دور نہیں ہوتی۔ جہالت کے خلاف روشن خیالی بھی معاشرے سے پھوٹتی ہے۔ اس کے پھیلائو کاتعلق اس بات سے ہے کہ آپ کن لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔ آپ کے ساتھی، آپ کے اساتذہ اور بہت سے دیگر طبقات۔ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت کا باعث ایک متعصب طبقے کی تعلیمات ہیں۔ لیکن ایسا ہر مذہب میں ہوتا ہے۔ہم نے انقلاب فرانس کے دوران بھی بے قابو ہجوم کو دیکھا۔آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک انقلاب جامد ماحول میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے لیکن یہ ہمیشہ چھوٹے واقعات سے جنم لیتا ہے۔ اسلام کی آمد جیسے کامیاب انقلابات کی بنیاد ایک نظریے پر ہے۔ اسلام کی غلط تشریح یا اس کی ناقص تشریح کوئی نظریہ نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم جہالت کو تبلیغ کرنے سے روک دیں۔ عقل و دانش سے عاری ہجوم اپنے عقیدے کی کوئی خدمت نہیں کرتے اور صرف اپنے مخالفین کی بندوقیں بھرتے اور اُنھیں اسلام پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
آپ نے کچھ عرصہ قبل واشنگٹن میں کیپٹل ہل پر ہجوم کو دھاوا بولتے دیکھا تھا۔ یہ مکمل جنونیت تھی۔ اس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں اور امریکہ اب بھی اس کھوج میں ہے کہ کیا ہوا اور کیا ہوسکتا تھا؟ پاکستان کو بھی ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ جب تک ہم اس کے بارے میں طویل المدتی پالیسی نہیں اپناتے، تعصب اور جہالت کا اندھیرا گہرا ہوتا جائے گا اور ہم ہر طرف سے شکست کے نرغے میں ہوں گے۔ کوئی جائے مفرباقی نہیں رہے گی۔ میں اپنی طرف سے صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ اپنی قوم کی طرف سے سری لنکن عوام سے معافی مانگوں اور انھیںبتاؤں کہ پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس واقعہ کی مکمل مذمت کرتے ہیں، اس پر شرمندہ ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں گے کہ کبھی ایسا نہ ہونے دیں۔
ابتدائی اقدامات کے طور پرحکومت کو چاہیے کہ وہ ان انتہا پسندوں کو خوش کرنے کی پالیسی ختم کرے۔ وہ جنونی جو بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں اور شہر وں کو بند کر دیتے ہیں، حکومت ان کو درست کرنے کے بجائے ان کے مطالبات تسلیم کرتی اور ان کے ساتھ ایسے معاہدے کرتی ہے جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ یہ بھی ایک طرح سے ہتھیار ڈالنا ہے جس کی اور کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب آگ پر مزید تیل ڈالنا ہے۔ لال مسجد یاد ہے۔اس واقعے کو جان بوجھ کر منفی رنگ دیا گیا جس کے بہت سنگین نتائج نکلے۔ اس دوران قدامت پسندوں کے مطالبات بڑھتے گئے۔
ٹی ایل پی کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ہم اُن کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے تقریباً ایک درجن پولیس والوں کو بھول چکے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کیا محسوس کر رہے ہوں گے؟ آپ اگراس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ریت میں سر دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ خطرے کا سامنا کرنے کے لیے سر اٹھانا ضروری ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)