• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے بیکری میں کیک بکتے ہوئے تو ضرور دیکھے ہوں گے ، انہیں سجانے کے لئے طرح طرح کی ٹاپنگ بنائی جاتی ہے جیسے کارٹون کیریکٹرز ، مختلف اقسام کی چاکلیٹ ،نت نئی اشکال ، جس کیک کی ٹاپنگ خوبصورت ہوتی ہے وہ زیادہ بہتر دام دے جاتا ہے،البتہ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بیکر ی والے نے کیک کی جگہ محض ٹاپنگ بیچنی چاہی ہو اور وہ بک گئی ہو…! کیک اور اس کی ٹاپنگ کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں ، کوئی اور بات کرتے ہیں۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں ، یہ بھی فرض کر لیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات ہی مسئلے کا بہترین حل ہیں ، یہ بھی فرض کر لیں کہ طاغوتی قوتیں ( نہ جانے یہ کس بلا کا نام ہے ) پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں، یہ بھی فرض کر لیں کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی دہشت گردی ختم ہو جائے گی …اگر یہ تمام باتیں درست مان لی جائیں تو بھی یہ کون سی موت کی کتاب میں لکھا ہے کہ ہماری پولیس اور فوج کے جوان اور نہتے اور معصوم شہریوں کا طالبان کے ہاتھوں مرنا لازمی ہے اور ہم ان کے خلاف اس لئے ایکشن نہیں لے سکتے کیونکہ یہ جنگ ہماری نہیں !یہ اس قدر بچگانہ دلیل ہے کہ اس کا جواب دیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔اگر یہ جنگ ہماری نہیں تو بھی ہمیں ہی لڑنی ہے کیونکہ دشمن نے تو ہمارے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے جبکہ ہم کسی شرمائی لجائی دلہن کی طرح منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ وہ ہمارے صوبائی دار الحکومت کی پوری پولیس فورس اڑا دیتا ہے اور ہمارے لیے بھارتی گانوں پر ناچتے ہوئے عید منانا ضروری ہے ، وہ ہمارے کرنل ، کیپٹن اور ایس ایس پی کو چلاس میں گھات لگا کر مارتا ہے اور جواب میں ہم اسے مذاکرات کی چاکلیٹ پیش کرکے کہتے ہیں کہ ان ”بچوں“ کو پیار سے سمجھائیں گے ، وہ جیل توڑ کر اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو چھڑوا لے جاتا ہے اور ہم اپنے لا وراث سپاہی کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے مقابلہ نہیں کیا، وہ پوری شدت کے ساتھ انٹر نیٹ پر اپنی میڈیا مہم چلائے ہوئے ہے جبکہ ہمیں فحش ویب سائٹس پر پابندی کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں، اس نے دو ٹوک کہہ رکھا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکل بھی گیا تو وہ بندوق کے زور پر اپنی مرضی کی ”شریعت “ نافذ کریں گے جبکہ ہم یہ راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتے کہ 9/11سے پہلے کوئی دہشت گردی نہیں تھی ، وہ مسجدوں اور بارگاہوں میں خود کش بمبار بھیج کر اللہ کے حضور سر بسجود ہوتے نمازیوں کے پر خچے اڑاتا ہے اور ہم یہ دلیل منہ پر مارتے ہیں کہ یہ ڈرون کا ردعمل ہے ، وہ ایک سکول جانے والی بچی کے منہ پر گولی مار کے اس معصوم کا منہ ٹیڑھا کر دیتا ہے اور ہم یہ فلسفہ بھگارتے ہیں کہ وہ بچی غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے ،وہ ہمارے طول و عرض میں جب چاہتا ہے حملہ کر کے ہمارا تماشہ دیکھتا ہے جبکہ ہمیں strategic depthکے خواب دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ،وہ کوئٹہ سے لے کر خیبر تک اور کراچی سے لے کرK-2کی پہاڑیوں تک پاکستانی ریاست کی عملداری کی دھجیاں اڑا دیتا ہے اور ریاست جواب میں رٹے رٹائے بیانات جاری کرکے یوں مطمئن ہو جاتی ہے جیسے اپنے ناراض داماد کو منانا مقصود ہو،وہ بچوں کے سکولوں کو بم دھماکے سے اڑا دیتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں، اسے پاکستانی ریاست ، حکومت ، فوج ، پولیس اور عوام کو اپنا دشمن ڈکلیئر کرنے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں بلکہ اس کے نزدیک یہ افضل ترین جہاد ہے ااور ہم ہیں کہ اپنے دشمن کا براہ راست نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں، وہ ”آرڈر“ دیتا ہے کہ انکے ساتھیوں کو پھانسی نہ ہونے پائے اورہم ”جو حکم سرکار “ کہہ کر سر تسلیم خم کرتے ہیں…کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوٴں !
جوسپاہی دہشت گردوں سے دو بدو لڑ رہا ہے اسے اس ضمن میں ایک فیصد بھی ابہام نہیں کہ یہ جنگ کس کی ہے، کس کے خلاف لڑی جانی چاہئے، کون ہمیں ما ر رہا ہے اور کیوں ما ر رہا ہے ! اگر ابہام ہے تو اوپری سطح پر یا مجھ جیسے نالائق دانشوروں کے ذہن میں جنہوں نے دس سال پہلے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ یہ جنگ ہماری نہیں سو اب اپنی بات سے پیچھے ہٹنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہاں مزید ”لطیفہ“ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ قبول کرنے میں تامل کا شکار ہیں کہ تمام دہشت گردی طالبان کروا رہے ہیں اور دوسری طرف بار بار ان سے مذاکرات کی دہائیاں بھی دیتے ہیں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟اگر نہیں تو مذاکرات کا شوق بھی پورا کر کے دیکھ لیں ، مذاکرات کا ایجنڈا ہوگا کہ جناب، اسلام آباد کو ”امیر المومنین “ کے حوالے کرنے کی تاریخ سے مطلع فرما کر شکرئیے کا موقع دیں !اگر ہمارے لچھن یہی رہے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں ، وہ آئیں گے ہمیں مارتے رہیں گے اور ہم یہی ترانہ گاتے گاتے مر جائیں گے کہ ”یہ جنگ ہماری نہیں ، یہ جنگ ہماری نہیں …۔“
ادھر ریاست کا ریسپانس دیکھئے ، ابھی خیر سے یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ریاست نے ان دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا بھی ہے یا نہیں !اگر بھارت کے ساتھ ہماری جنگ ہوتی اور اس جنگ میں ہمارے سیکورٹی اداروں کے اہلکار اور شہری چالیس ہزار سے زائد تعداد میں مارے جاتے تو کیا اس صورت میں بھی دس سا ل بعد ریاست نے جنگ ڈکلیئر کرنے کے بارے میں ”سوچنا“ تھا؟ اس صورت میں کسی نے میڈیا کو پوچھنا تھا اور نہ ہی ایک لمحے کی تاخیر کرنی تھی بلکہ جنگ چھڑ جانے کے بعد عوام کو ”اعتماد“ میں لیا جانا تھا۔
ایک فوج کا جوان یا پولیس کا سپاہی دہشت گردوں کے خلاف اس لئے کامیاب نہیں ہوتا کہ اس کے پاس زیادہ جدید ہتھیار ہوتے ہیں یا وہ ان سے زیادہ بہتر انداز میں لڑ سکتا ہے بلکہ وہ اس لئے کامیاب ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ریاست کی طاقت کھڑی ہوتی ہے ،اسے علم ہوتا ہے کہ اس کی قانونی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی صورت میں ریاست، اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے کو پوری قوت سے کچل دے گی اور اس کی شہادت کی صورت میں اس کے خاندان اور بیوی بچوں کی مکمل حفاظت اور کفالت کرے گی۔اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ریاست کی بنیادی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ تشدد (violence) پر صرف اور صرف ریاست کی اجارہ داری ہوگی ، جب یہ اجارہ داری قائم نہ رہے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ملکوں میں کرپشن بھی ہوتی ہے ، لوگ ڈاکے بھی ڈالتے ہیں ، قتل بھی کرتے ہیں ، لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے ، زلزلے اور سیلاب بھی آتے ہیں ، ڈینگی جیسی وبائیں بھی نازل ہوتی ہیں ، حکومت کے ماتحت چلنے والے ادارے خسارے میں بھی جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کسی بھی بات کی وجہ سے ریاست کا وجود خطرے میں نہیں پڑتا ، ریاست کا وجود صرف اس وقت خطرے میں پڑتا ہے جب ریاست اپنے سپاہی کے پیچھے کھڑی ہونے سے گریز کرے۔اور جس دن ریاست یہ پالیسی اپنا لیتی ہے اس دن وہ مسلح گروہوں کی طرف سے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھے ہوئے فرمان کے آگے بھیگی بلی کی طرح ڈھیر ہو جاتی ہے۔
یہ حکومتیں اوریہ وزارتیں، یہ سب اس ٹاپنگ کی طرح ہیں جو کیک پر سجائی جاتی ہے ، جب کیک کا وجود ہی نہ رہے تو پھر خالی خولی ٹاپنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ہمیں ٹاپنگ کی پروا ہے ، کیک کی نہیں۔
تازہ ترین