• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی حکام ڈی ایچ اے پلاٹ ٹرانسفر کرانے میں مدد کریں

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برٹش پاکستانی بزنس مین45سالہ ارشد محمود نے پاکستان میں حکام سے اپیل کی ہے کے ڈی ایچ اے ویلی اسلام آباد میں پلاٹ فائل خریدے 5سال گزرنے کے باوجود اسے پلاٹ اپنے نام ٹرانسفر کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسے انصاف دلوایا جائے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ارشد محمود نے2011ء میں اسلام آباد کی ڈی ایچ اے ویلی میں اوپن فائل خریدی تھی۔ ارشد کا کہنا ہے کہ اس نے جب فائل خریدی تو9ادائیگیاں ڈی ایچ اے کو کی جا چکی تھیں۔ عسکری بینک کی سلپس اور ڈی ایچ اے سٹیٹمنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ادائیگیاں اپ ٹو ڈیٹ تھیں۔ لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب2014ء میں ارشد نے فائل اپنے نام ٹرانسفر کرانا چاہی۔ ارشد کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے نے اس سے کہا کے وہ10ویں اور11ویں اقساط بھی جمع کرائے اس کے بعد ہی فائل اس کے نام ٹرانسفر ہو سکتی ہے۔ مزید دو اقساط جمع کرانے کے بعد ارشد نے اپنے نام فائل ٹرانسفر کرانے کےلئے اپلائی کیا لیکن یہ پراسس مکمل نہیں ہو سکا اور وہ لندن واپس چلا گیا۔ اس کا دعویٰ ہے کے واپسی کے بعد اس نے ڈی ایچ اے سے اپ ڈیٹ کے لئے کہا تو اسے کہا گیا کے ان کے پاس درخواست کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جب اس نے انہیں گزشتہ سال کی سلپس دکھائیں تو اس کے دعویٰ کے مطابق تو اس سے کہا گیا کہ وہ تمام اوریجنل پیپر ورک دکھائے اور پھر پراسس شروع ہوگا۔ کچھ روز بعد معلوم کرنے پر اسے کہا گیا کہ عسکری بینک کی سات بینک سلپس جعلی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان پر عسکری بینک کی مہر تھی۔ ارشد نے اس کی تصدیق کے لئے لیٹر جاری کرنے کو کہا لیکن ڈی ایچ اے نے ایسا لیٹر فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ ارشد نے سپریم کورٹ اف پاکستان میں رسائی حاصل کرکے تمام پیپر ورک پیش کئے اور استدعا کی کہ عدالت آزادانہ طور پر حقائق چیک کرے۔ ڈی ایچ اے سٹیٹمنٹ سے پتہ چلتا ہے کے11ادائیگیاں کی گئی ہیں اور اب بھی یہ بدستور دیکھا جا سکتا ہےکہ11ادائیگیاں کی گئی ہیں تو پھر ڈی ایچ اے کس طرح یہ کہہ سکتی ہے کہ7بینک سلپس جعلی تھیں جبکہ ان کا اپنا سرکاری بیان اس کے دعوے کی تردید کرتا ہے۔ ارشد کے مطابق اگر کسی قسم کا کوئی فراڈ ہوا ہے تو یہ ڈی ایچ اے نے کیا یا پھر کم از کم ڈی ایچ اے کی معاونت سے ہوا ہے۔ ڈی ایچ اے یا عسکری بینک کی مداخلت کے بغیر فراڈ ممکن نہیں ہے۔ برطانوی نیشنل ارشد محمود نے پھر ایک سال قبل سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور ہیومن رائٹس سیل نے اس معاملے کو اٹھایا۔ اس کا کہنا ہے کہ منسٹری اف ڈیفٹس کو متعدد نوٹسز ایشو کئے گئے لیکن اس نے انکار کیا کہ شکایت کنندہ کبھی ڈی ایچ اے کے پاس پہنچا۔ تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود ہیومن رائٹس سیل کا کہنا ہے کے اس نے یہ معاملہ24اپریل2016ء کو نمٹا دیا ہے اور ارشد کو زبانی یہ کہا گیا کہ وہ سول کیس فائل کرے۔ ارشد کا کہنا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود متعدد کالز کرنے پر بھی اسے تحریری طور پر عدالت کی جانب سے کچھ موصول نہیں ہوا۔ میں یہ توقع نہیں کرتا کہ سی جے پی ہر معاملے کو ذاتی طورپر خود دیکھیں لیکن میں یہ توقع کرتا ہوں کے سی جے پی یہ یقینی بنائیں کہ انصاف کی فراہمی کے لئے مناسب جسٹس سسٹم موجود ہو اور جب سسٹم ناکام ہو تو کورٹ میں مناسب کمپلینٹس سسٹم ہو اور کسی ناکامی پر وہ ذاتی دلچسپی لیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کوئی ذاتی مفاد کی بات نہیں کر رہا تاہم صرف یہ کہہ رہا ہوں کے ہر ایک اپنا کام کرے۔ اس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے میرے تمام شواہد نظر انداز کر دیئے جن سے یہ پتہ چلتا تھا کے اس نے معاملہ حل کرنے کے لئے ڈی ایچ اے تک رسائی کی تھی یہ معاملہ پاناما کمپنیز سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے ان ہزاروں افراد کی مدد ہوگی جن کا پیسہ ڈیولپرز کے ایکشنز میں ضائع ہوگیا۔اس سے جسٹس سسٹم پر اعتماد بڑھے گا اور دبئی جیسے مقامات کے بجائے اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی ہوگی۔ عوام کے تحفظ کے لئے لینڈ مارک فیصلے کی ضرورت ہے۔ میں سی جے پی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے کیس کو دیکھیں اور مجھے انصاف فراہم کریں۔ دی نیوز نے ڈی ایچ اے کو سوالات بھیجے تھے مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
تازہ ترین