• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گوادر کو حق دو: بلوچستان کی تاریخ کا بڑا اور طویل دھرنا

بلوچستان کے ساحلی اور سی پیک منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شہر گوادر میں گزشتہ چار ہفتے سے گوادر کو حق دو دھرنا جاری ہے جسے بلاشبہ بلوچستان کی تاریخ کا بڑا اور طویل دھرنا قرار دیا جاسکتا ہے اگرچہ اس دھرنے کی قیات گوادر سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی بلوچستان کے نوجوان صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کررہے ہیں۔ 

تاہم انہیں اس وقت گوادر کے عوام سمیت وہاں کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی حمایت حاصل ہے یوں دھرنا کو ایک عوامی دھرنا قرار دیا جاسکتا ہے دھرنا میں گوادر کے عوام کی بھرپور شرکت تو ہے اور بلوچستان میں سیاسی جدوجہد میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین خاص طور پر بلوچ خواتین کی شرکت اگرچہ نئی بات نہیں رہی لیکن یہ بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا دھرنا ہے جس میں خواتین کی شرکت بھی ہزاروں میں ہے ، مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے ستمبر کے آخر میں گوادر میں ایک تاریخی جلسہ کرکے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی جب انہوں نے نہ صرف گوادر شہر بلکہ مکران ڈویژن کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا تھا۔ 

بلوچستان کے انتہائی دور دراز ساحلی شہر گوادر میں دو ماہ قبل شروع ہونے والی گوادر کو حق دو تحریک پورئے ملک کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر صوبائی وزرا پر مشتمل ایک وفد نے گوادر جاکر دھرنا کے رہنماوں سے مذاکرات کیے تھے اور صوبائی وزرا کی جانب سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ دھرنا کے شرکا کے 4 بڑئے مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں تاہم دھرنا کے شرکا نے بات چیت کو ناکام قرار دیا تھا جس کے بعد اب تک صوبائی وزرا پر مشتمل وفد اور دھرنا کے شرکا کے درمیان مذاکرات کے چار دور ہوچکے ہیں۔ 

تاہم مسلہ حل ہونے کی بجائے روز بروز پیچیدہ ہوتا نظر آرہا ، گوادر دھرنا کو ان سطور کے تحریر کیے جانے تک 28 روز ہوچکے تھے ، وزیراعظم عمران خان نے بھی دھرنا کا نوٹس لے لیا ہے ، گوادر کو حق دو تحریک کے بڑئے مطالبات میں بڑئے ٹرالروں کے زریعے فشنگ پر پابندی عائد کرنا ، ہمسایہ ملک ایران سے بارڈر ٹریڈ کی اجازت ، گوادر میں قائم چیک پوسٹ ہٹانا ، کوسٹ گارڈ کے حوالے سے درپیش مسائل ، شہر میں شراب کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں۔ 

تحریک کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ رواں سال 16 اگست کو مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی قیادت میں گوادر میں سربندن کوسٹل ہائی وئے پر دھرنا دیا گیا چار روز تک جاری رہنے والے دھرنے کو صوبائی وزرا کی جانب سے مطالبات پر پیشرفت کی مثبت یقین دہانی پر ختم کردیا گیا تھا ، تاہم اس سلسلے میں پھر کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی ، 30 ستمبر کو گوادر کو حق دو تحریک کے زیراہتمام گوادر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا سنیجدہ سیاسی حلقوں نے اس جلسے کو بڑی اہمیت دی تھی اور اسے ایک بڑی تحریک کا آغاز قرار دیا تھا۔ 

تاہم اس کے بعد بھی صوبائی حکومت کی جانب سے مطالبات کی جانب کوئی بڑی پیشرفت نظر نہیں آئی ، اس دوران بلوچستان اسمبلی میں پہلے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 14 ستمبر 2021 کو بعد ازاں صوبے میں حکمران بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد صوبے میں ایک طویل سیاسی بحران کا آغاز ہوا جو جام کمال خان کے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل اپنے عہدئے سے مستعٰفی ہونے اور 29 اکتوبر کو میر عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر اختتام ہوا تاہم اس دوران گوادر میں پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ 

اس دوران 31 ستمبر کو تحریک کے روح رواں مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے گوادر میں ایک پریس کانفرنس کے زریعے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا ، جس کے بعد 15 نومبر کو گوادر میں دھرنے کا آغاز ہوا جو ان سطور کے تحریر کیے جانے تک نہ صرف جاری تھا بلکہ اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے دھرنے کے سلسلے میں ہفتہ رفتہ کے دوران خواتین کی ریلی نکالی گئی جو نہ صرف گوادر یا بلوچستان بلکہ ملک کی تاریخ کی بڑی ریلی تھی جس میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی ، یاد رہے کہ گوادر کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہوگی اس لئے گوادر میں ہونے والے جلسے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت اہمیت رکھتی ہے۔ 

پہلے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی اور مرکزی سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے گوادر کا دورہ کرکے دھرنا کے شرکا سے اظہار یکجہتی کیا جس کے بعد رواں ہفتہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے گوادر کا دورہ کیا اور دھرنے کے شرکا کو تعاون کا یقین دلایا اسی دوران بزرگ بلوچ سیاسی رہنما یوسف مستی خان نے بھی گوادر کا دورہ کیا اور وہاں خطاب کیا جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے نہیں حراست میں لینے کے بعد اگلے روز ضمانت ملنے پر رہا کردیا گیا۔ 

نیشنل پارٹی نے یوسف مستی خان کی گرفتاری کے خلاف صوبے بھر میں مظاہرئے کیے ، دھرنا کے شرکا کا موقف ہے کہ بڑئے ٹرالروں کے زریعے فشنگ سے ایک جانب ان کے روزگار کا واحد زریعہ ختم ہوکر رہ گیا ہے تو دوسری جانب بڑئے ٹرالر غیرقانونی فشنگ سے سمندری حیات کو تباہی سے دوچار کرنے میں مصروف ہیں جس سے مستقبل میں اس کے انتہائی منفی نتائج مرتب ہوں گے۔ 

ان کا دوسرا بڑا مطالبہ بارڈر ٹریڈ کے حوالے سے ہے نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے عوام کا زریعہ معاش بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے جس کے لئے دھرنا کے شرکا نرمی چاہتے ہیں ، ایک جانب گوادر کو حق دو تحریک نے پورئے ملک کی توجہ حاصل کرلی ہے لیکن صوبے کی بڑی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھرپور انداز میں دھرنا کے شرکا سے اظہار یکجہتی نہ ہونے کو صوبے کے سیاسی حلقوں میں محسوس کیا جارہا ہے اسی طرح صوبائی حکومت کی جانب سے مسائل کے حل میں روایتی تاخیر بھی واضح نظر آرہی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین