سندھ میں سیاسی جماعتوں نے عملاً بلدیاتی انتخاب کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب سیاسی گہماگہمی میں اضافہ ہواہے تو دوسری طرف شہری ودیہی تفریق اور کشیدگی بھی بڑھی ہے۔ سندھ میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے ترقیاتی منصوبے مکمل کررہی ہے تاکہ عوام میں انتخاب کے موقع پر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرسکیں تودوسری طرف سندھ حکومت کے ترامیمی بلدیاتی بل کے خلاف اسمبلی اور اسمبلی سے باہر اپوزیشن کی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے پی پی پی کے ترمیمی بل کو مستردکردیا ہے اور اس بل کے خلاف اسمبلی اور اسمبلی کے باہر تحریک چلانا کا عندیہ دیا ہے ۔
پی ٹی آئی کے تحت بلائی گئی کراچی اسٹیک ہولڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ اسدعمر نے کہاہے کہ سندھ کے لیے فیصلے کا وقت آگیا اور کراچی اب اپنے حق کا انتظارنہیں کرے گا،دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے سندھ اسمبلی میں نئے بلدیاتی قانون کی منظوری کو مسترد اور اس کے خلاف عوامی تحریک چلانے کااعلان کیا ہے۔ یہ اعلان اپوزیشن رہنماؤں حلیم عادل شیخ، بلال غفار، کنورنویدجمیل، عارف جتوئی اور محمدحسین نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کیا۔
جبکہ سندھ کابینہ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہاہے کہ وزیراعظم کسی بھی قانون کے حوالے سے مشاورت نہیں کرتے سندھ اپوزیشن بلدیاتی قانون کے حوالے سے عوام کو گمراہ کررہی ہے کوئی مجھے دھمکیاں نہ دے میں اس قسم کی چیزوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں حکومت سندھ بلدیاتی اداروں کو خودمختار بنانا چاہتی ہے اور اسی چیز کو سامنے رکھ کر قانون میں ترمیم کی گئی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلدیاتی بل کے حوالے سے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں تفریق بڑھتی جارہی ہے اور اس بات کے خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ بل لسانی جھگڑے کا سبب نہ بن جائے۔
رہی سہی کسر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بلدیاتی بل کے حوالے سے ایک غیر ضروری پریس کانفنرنس کرکے پوری کردی حالانکہ اس معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزراء دو ٹوک موقف کا اظہار کرچکے تھے بلاول بھٹو نے کہاکہ سندھ کی عوام بلدیاتی نظام کو کالا قانون کہنے والوں کا منہ کالا کریں گے اب پتنگ چلے گی نہ بلا صرف تیر چلے گا مصطفی کمال ہو یا وسیم اختر انہیں دہشت گردی کرتے دیکھا بانی متحدہ کی سیاست اب نہیں چلے گی اگر لسانی سیاست کروں گے تو ہم وہ کریں گے کہ تم یاد کرو گے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس پریس کانفرنس میں جلتی رپ تیل کا کام کیا ہے پیپلزپارٹی کو اس پریس کانفرنس سے نقصان ہوا ہے جبکہ اردو بولنے والے جو متحدہ قومی موومنٹ سے متنفرتھے اس پریس کانفرنس کے بعد متحد نظر آئیں گے دوسری جانب وزیراعظم نے اپنے دورہ کراچی کے دوران 35 ارب کے کراچی گرین لائن منصوبے کا افتتاح کردیا یہ منصوبہ مسلم لیگ(ن) کے دورمیں شروع کیا گیا تھا جو تاخیر کا شکاررہا منصوبےکے آخری مرحلے پر ابھی بھی کام جاری ہے۔
وزیراعظم کے افتتاح سے قبل مسلم لیگ(ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال کے منصوبے کا علامتی افتتاح کیا اس موقع پر رینجرز طلب کرگئی اور دھکم پیل، لاٹھی چارج میں ان کے ہاتھ پر بھی لاٹھی لگی احسن اقبال کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ دراصل ہمارا ہے جس کا فیتہ وزیراعظم کاٹنے آئے ہیں وزیراعظم عمران خان نے منصوبے کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے وہ کام کئے ہیں، جو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں کئے جاتے، لوگوں کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے ہیلتھ انشورنس فراہم کی گئی ہے کیونکہ ایک بیماری کے باعث پورا گھرانہ مقروض ہوجاتا ہے اور غربت سے نیچے آجاتا ہے۔
خیبرپختونخواہ میں سب خاندان کو ہیلتھ انشورنس فراہم کردی گئی ہے ، ہر خاندان10 لاکھ روپے تک اپنا مفت علاج کراسکتا ہے، صوبہ پنجاب کے بعض اضلاع میں ہیلتھ کارڈ دے دیئے گئے ہیں جبکہ جنوری سے مارچ کے دوران پنجاب بھر میں تمام خاندانوں کو ہیلتھ انشورنس فراہم کردی جائے گی، صوبہ بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اپنے شہریوں کوہیلتھ کارڈ ینے کے لیے تیار ہیںِ سندھ حکومت کو بھی اپنے صوبہ کے عوام کے مفاد میں ان کو ہیلتھ کارڈ دینے چاہئیں۔
جبکہ پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے اپنے ردعمل میں کہاہے کہ وزیراعظم خالی اور خیالی اعلانات کرنے کے بجائے عملی طور پر سندھ کے لیے منصوبے دیں، ماس ٹرانزٹ کو جنگلابس کہنے والے کو فیتا کاٹتے ہوئے شرم سے مرجانا چاہیئے تھا۔ وزیراعظم نے نامکمل منصوبے کا افتتاح کیا جس کا نہ سر ہے اور ن ہی پاؤں ہیں۔ ادھر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر پٹرولیم منصوعات بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ہوشربامہنگائی، بے روزگاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کے سلسلے میں پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے تحت ایمپریس مارکیٹ صڈر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔