چند روز قبل برادرم حامد میر نے پاکستانی معاشرے کی دورخی پر خوب کالم لکھا اگر وہ پورے مسلم معاشرے کی تصویر کشی کرتے تو وہ بھی اس سے مختلف نہ ہوتی کیونکہ مسلمانوں کے زوال پذیر ہونے کی واحد وجہ مسلمان حکمرانوں کا دہرا کردار ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی اکثریت امریکی غلامی کو فرض اولین سمجھتی ہے۔ حیرت ہے اس میں مذہبی رہنما بھی شامل ہیں کئی مذہبی رہنماؤں کا ”چہرہ“ بھٹو صاحب کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے دوران بے نقاب ہوا تھا، جو بچ گئے تھے انہیں بعد میں آنے والے حالات نے بے نقاب کر دیا۔ رہ گیا موجودہ دور تو ہر معاملا مولانا فضل الرحمن پرآ کر رک گیا ہے۔ مولانا صاحب سے میرے اچھے مراسم ہیں مگر ہماری سوچوں میں بہت فاصلے ہیں مثلاً مولانا فضل الرحمن خان اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کہنا تو نہیں چاہئے مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کی جان اقتدار میں پھنسی ہوئی ہے۔ گزشتہ بیس پچیس سال سے وہ اقتدار کے ایوانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اب بقول عمران خان مولانا فضل الرحمن امریکی سفیر سے مل کر کہتے ہیں کہ آپ مجھے وزیراعظم بنا دیں جو کام کہیں گے وہی کروں گا۔ میری رائے میں مولانا فضل الرحمن کی یہ بات انتہائی قابل گرفت ہے کسی مذہبی سیاسی رہنما کو ایسی بات زیب نہیں دیتی۔ خدا کرے کہ مولانا صاحب امریکہ سے زیادہ اللہ پر بھروسہ شروع کردیں لوگ الزام لگاتے ہیں کہ مولانا صاحب میاں شہباز شریف کے کہنے پر عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں مولانا کو کسی کے کہنے پر ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ عمران خان ایک سچا مسلمان ہے اور عمران خان ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھتا ہے۔ ایجی سن کالج کی کرکٹ ٹیم کے کپتان چوہدری نثار علی خان جب عمران خان کو نہیں کھلایا کرتے تھے تو عمران خان کہا کرتے تھے کہ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے، میرا خدا مجھے ایک دن قومی کرکٹ ٹیم میں ضرور کھلائے گا۔ اس زمانے میں چوہدری نثار علی خان کہا کرتے تھے کہ عمران خان کا جسم باؤلروں والا نہیں ہے بس یہ باقی کھلاڑیوں کو پانی شانی پلا دیا کرے اور بارہواں کھلاڑی ہی رہے قدرت نے نثار علی خان کی باتوں کو غلط ثابت کیا وہ نہ صرف بہت اچھا باؤلر بنا بلکہ کامیاب کپتان بنا اس نے ایک ہلکی ٹیم کے ساتھ قوم کو ورلڈ کپ جیت کر دیا پھر اس نے قوم کیلئے فلاحی کام کئے ان فلاحی کاموں میں دو مرحومین نے عمران خان کا بہت ساتھ دیا ان میں نصرت فتح علی خان اور دلدار پرویز بھٹی شامل تھے جو لوگ ابھی تک عمران خان کو سیاستدان تسلیم کرنے سے انکاری ہیں انہیں نثار علی خان کی باتوں کا جائزہ لینا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ عمران خان کا خدا پر پختہ یقین ہے۔ اس کے ساتھ آپ جتنی مرضی دھاندلی کر لیں وہ ہارنے والا نہیں، اسے اپنے خدا پر پورا بھروسہ ہے۔
آج 22 اگست ہے۔ آج پورے ملک میں ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات میں پتہ نہیں کتنی دھاندلی ہوتی ہے گیارہ مئی کو تو بہت دھاندلی ہوئی تھی۔ وسیع پیمانے پر ہونے والی اس دھاندلی پر تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کے بعد دو ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر میں چشم کشا انکشافات کئے گئے ہیں۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ کہاں اور کیسے کیسے دھاندلی ہوئی اور آپ کے بڑے بڑے لیڈر کس طرح اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔
قارئین کرام! آج میں عمران خان کی جانب سے پیش کردہ وائٹ پیپر پر بات نہیں کروں گا بلکہ سسی پلیجو کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کروں گا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون غلام قادر پلیجو کی بیٹی ہے۔ غلام قادر پلیجو کو متعدد مرتبہ ٹھٹھہ کے عوام نے منتخب کر کے اسمبلی تک پہنچایا۔ 1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں ٹھٹھہ کے صوبائی حلقے پی ایس 70 سے غلام قادر پلیجو بھاری اکثریت سے جیتے۔ 2002ء میں یہ حلقہ پی ایس 85 بن گیا۔ اس مرتبہ پی ایس 85 سے غلام قادر پلیجو کی بیٹی سسی پلیجو نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ جیت گئیں۔ سسی پلیجو نے نہ صرف 2002ء کا الیکشن جیتا بلکہ 2008ء کا الیکشن بھی بھاری اکثریت سے جیتا۔ سسی پلیجو سندھ کی کابینہ میں شامل رہیں۔ انہوں نے ٹھٹھہ کے عوام کیلئے بہت کام کئے ان کے والد نے بھی ترقیاتی کام بہت کرائے تھے انہوں نے گھارو سے کیٹی بندر براستہ ساکرو شاندار سڑک بنوائی۔ سسی پلیجو نے دیہاتوں میں سڑکیں اور سیکڑوں اسکول بنانے کے علاوہ نہروں اور کھالوں کا کام کرایا۔ آج گھارو، گجو، ساکرو، گلاملا، بہارو اور دھابیجو میں ترقیاتی کام سسی پلیجو کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگ شاہی ٹھٹھہ کی رہائشی سسی پلیجو ہمیشہ ٹھٹھہ اور سندھ کے حقوق کیلئے لڑتی رہیں۔ ان کا یہی قصور حالیہ الیکشن میں آڑے آیا کیونکہ سسی پلیجو ٹھٹھہ کے عوام کی خاطر ہر جگہ لڑتی تھیں بعض اوقات وہ اپنی پارٹی اور کابینہ کی میٹنگوں میں بھی تلخ ہو جاتی تھیں۔ سسی پلیجو کی عوام دوستی ہی ان کیلئے مشکلات کھڑی کر گئی۔ 11 مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے سسی پلیجو کو ہرانے کا منصوبہ پتہ نہیں کیسے ترتیب دیا تھا کہ پی ایس85 میں سارا عملہ ہی سسی پلیجو کے خلاف کام کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ سسی پلیجو کے ساتھ تین طرح کی دھاندلیاں ہوئیں۔ ایک الیکشن سے قبل دوسری الیکشن ڈے پر اور تیسری الیکشن کے بعد گنتی کے مرحلے پر۔ اب اگر اس کو نہ سنا گیا تو اس کے ساتھ چوتھی دھاندلی بھی ہو جائے گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابات سے قبل ٹھٹھہ کے شیرازی سیاسی قلا بازیاں لگا رہے تھے کبھی وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوتے اور کبھی آزاد ہو جاتے کبھی مسلم لیگ فنکشنل کے ساتھی بن جاتے خیر انہیں جو نادیدہ قوتوں نے کہا انہوں نے ویسا ہی کیا اور الیکشن پیپلز پارٹی کے خلاف لڑا ۔ الزام ہے کہ الیکشن سے قبل ان کے منیجر کے رشتہ داروں کو ٹھٹھہ کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں ڈی ای او اور ای ڈی او لگا دیا گیا جب پولنگ کیلئے عملہ مقرر ہو چکا تھا تو الیکشن سے صرف ایک دن پہلے پولنگ کا عملہ تبدیل کر دیا جب سسی پلیجو کی جانب سے عملے کی فہرستیں مانگی گئیں تو صاف انکار کر دیا گیا۔ پولنگ ڈے پر الگ تماشہ یہ ہوا کہ پی ایس 85 کے پندرہ پولنگ اسٹیشنوں پر کوئی ایک ووٹ بھی نہ ڈال سکا کیونکہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہاں شیرازی برادران کے حواریوں نے اسلحہ کے زور پر پولنگ اسٹیشنوں کو یرغمال بنا لیا تھا 22 پولنگ اسٹیشنوں پر فائرنگ کر کے بیلٹ پیپرز ہی چھین لئے گئے، اس کھلی دھاندلی پر سسی پلیجو اور پیپلزپارٹی کے امیدوار قومی اسمبلی صادق علی میمن نے الیکشن کمیشن، الیکشن کمشنر، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کو فیکس اور ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کیا مگر افسوس کہ کوئی ایکشن نہ ہو سکا مزید چودہ پولنگ اسٹیشن ایسے تھے جن کا نتیجہ نامکمل رہا۔ ان حالات میں بیلٹ پیپرز کے جو تھیلے آئے انہیں ایک کمرے میں رکھ کر تالا لگا دیا گیا۔ ریٹرننگ آفیسر نے اس کی چابی مبینہ طور پر شیرازیوں کے ایک آدمی کے حوالے کر دی۔ 14 مئی کو سسی پلیجو ریٹرننگ آفیسر کے روبرو پیش ہوئیں اور مطالبہ کیا کہ نامکمل نتیجہ اردو میں لکھ کر کیسے بھیج دیا گیا ہے۔ ابھی نتیجہ مکمل ہی نہیں تو کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس پر ریٹرننگ آفیسر نے دوبارہ گنتی کا حکم صادر فرمایا مگر گنتی اسی کلرک کے حوالے کی جوان کے منیجر کا رشتہ دار ہے یہ جو تھیلے لایا وہ ستر فیصد بغیر سیل کے تھے جب اعتراض کیا گیا کہ فلاں فلاں اسٹیشنوں کے تھیلے کدھر ہیں تو پھر پتہ نہیں دوسرے روز وہ تھیلے کہاں سے لے آیا مگر حیرت پھر بھی قائم رہی کہ مسترد شدہ ووٹوں کا تھیلا پھر غائب تھا جب 80 پولنگ اسٹیشنوں کے ناقابل تردید ثبوت پیش کئے گئے تو ریٹرننگ آفیسر نے نوٹس ہی نہ لیا 21 پولنگ اسٹیشن ایسے تھے جن کے ووٹ فہرست سے کہیں زیادہ تھے سسی پلیجو نے الیکشن ٹریبونل سے رجوع کر رکھا ہے اور پی ایس 85 کی قریباً سترہ عورتوں نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن کر رکھی ہے کہ انہیں ووٹ کیوں نہیں ڈالنے دیا گیا 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی ہے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے کیوں محروم رکھا گیا ہے ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ کم از کم ان پندرہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی دوبارہ الیکشن کروا دیا جائے تاکہ وہ اپنا آئینی حق استعمال کر سکیں اس پٹیشن میں پی ایس85 کی خواتین نے امن عامہ کی ضمانت بھی مانگی ہے ان کا کہنا ہے کہ انہیں پورے حلقے میں حراساں کیا گیا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرایا جائے خدا کرے سندھ کے حقوق کیلئے لڑنے والوں کو ان کاجائز حق مل جائے (جس کی توقع کم ہی لگتی ہے) خدا کرے کہ ٹھٹھہ کے عوام نے جس کو ووٹ دیئے یا جس کو دینا چاہتے تھے وہی کامیاب ہو، دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ویسے گیارہ مئی کے الیکشن میں جتنی دھاندلی ہوئی پاکستان میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ جاتے جاتے ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے اشعار جو حسب حال بھی ہیں #
محبت زندہ رہنا چاہتی ہے
مریضہ ہے مسیحا چاہتی ہے
دیا چوپال کا بجھنے لگا ہے
کہانی ختم ہونا چاہتی ہے