چند ماہ پیشتر ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن ہیں، بہت احترام سے ملے، دورانِ گفتگو فرمانے لگے آپ نے ادب کی بہت خدمت کی ہے اور میں نے بہت سے ادبی دوستوں کی زبان سے آپ کے لیے ’’استادِ محترم‘‘ کے الفاظ سنے ہیں تاہم میرے لیے اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات ہے کہ آپ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے بھی استاد رہے ہیں۔ میں ان کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے وہ ’’آج سیاست کی مین اسٹریم میں جس طرح پہنچی ہیں وہ اسی گرومنگ کا نتیجہ ہے جو آپ ایک طویل عرصے سے ان کی کرتے چلے آ رہے ہیں‘‘۔ یہ صاحب بہت سنجیدہ مزاج کے ہیں مگر مجھ سے اپنا قہقہہ روکا نہ جا سکا، پوچھنے لگے ’’آپ ہنسے کیوں ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’میں مریم بی بی سے پوری زندگی میں صرف تین دفعہ ملا ہوں، میں ان کی گرومنگ کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ یہ سن کر وہ صاحب بےحد حیران ہوئے اور بولے ’’مگر سر میں نے یہ بات مسلم لیگ کے بہت قریبی ذرائع سے سنی ہے‘‘۔ میں ایک بار پھر بےاختیاری کے عالم میں ہنسنے لگا۔ وہ صاحب بہت شرمندہ سے نظر آ رہے تھے، تب میں سنجیدہ ہو گیا۔ میں نے کہا، جناب اُن کی ابتدائی گرومنگ ان کے دادا میاں محمد شریف صاحب نے کی تھی کہ انہیں اپنی اس پوتی میں کچھ ایسے ’’گٹس‘‘ نظر آ رہے تھے جو اس کی کامیابی کے ضامن بن سکتے تھے۔ ان کے بعد مریم بی بی کی ساری گرومنگ ان کے والد میاں نواز شریف صاحب نے کی ہے، وہ بہت باصلاحیت خاتون ہیں چنانچہ وہ بہت کم عرصہ میں مقبولیت کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہیں۔
وہ صاحب اٹھ کر گئے تو میں سوچنے لگ گیا کہ کیا سب ’’قریبی ذرائع‘‘کی خبریں اس طرح کی ہوتی ہیں مگر اس کہانی کا عروج ابھی آنا ہے اور یہ وہ لمحہ تھا جب ایک اور صاحب نے بھی مجھے مریم بی بی ہی کا نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو بھی میری شاگردی میں دے ڈالا۔ پہلے صاحب کی باتوں پر تو میں ہنستا رہا تھا، اس بار مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کروں؟ یہ صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ کے متعلق مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف آپ سے مشورہ کیے بغیر ایک قدم نہیں چلتے۔ میں نے انہیں بتایا کہ شریف فیملی سے ہمارے خاندانی تعلقات ہیں اور 1990کے بعد سے اُن سے میرا تعلق ذاتی کے علاوہ نظریاتی بھی ہو گیا ہے۔ میاں صاحب مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں ان سے محبت کرتا ہوں کہ 1990کے بعد سے انہوں نے پاکستانی عوام کے لیے بہت خدمات انجام دی ہیں مگر میرے یہ دوست مطمئن نہیں ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ وہ میاں صاحب کے انتہائی قریبی حلقوں کی بات کیسے رَد کر سکتے ہیں جو آپ کو میاں صاحب کا ’’مشیر اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں۔
جب گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر میرے غیرسیاسی انٹرویو کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی تو ریکارڈنگ سے پہلے اس شو کے انتہائی محترم اینکر نے وہی بات دہرائی جو دو دوستوں کی زبانی میں پہلے ہی سن چکا تھا تو اس مرتبہ میں نے تردید نہیں کی بلکہ اس بیان کا ’’چیزا‘‘ لینا شروع کر دیا۔ میں نے کہا آپ پہلے آدمی ہیں جن کے سامنے میں آج اقرار کرنے لگا ہوں کہ مریم بی بی اور میاں نواز شریف ہی نہیں میاں شہباز شریف بھی سیاست میں میرے شاگرد ہیں اور میں نے انتہائی مشکل مراحل میں ان کی رہنمائی کی ہے۔ یہ سن کر ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی کہ ان کی خبر کی ’’فرام ہارسز ماؤتھ‘‘ تصدیق ہو گئی تھی بس اس کے بعد میں تھا اور اُس اینکر دوست کی حیرانیاں تھیں۔ میں نے کہا اب بات چل ہی نکلی ہے تو آپ کو بتاتا چلوں کہ جنرل ایوب خان منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے تو انہوں نے سب سے پہلے مجھے فون کیا، میں اگرچہ اس وقت کالج کا طالب علم تھا مگر ایوب خان کے قریبی حلقوں نے انہیں بتایا کہ عطاء الحق قاسمی نام کا ایک نوجوان ایم اے او کالج میں پڑھتا ہے مگر اس میں سیاسی دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے چنانچہ آپ ہر معاملہ میں اس سے مشورہ کر لیا کریں، میں نے اپنے اس اینکر دوست کو یہ بھی بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی استادی کا بھی مجھے شرف حاصل رہا ہے مگر اِس دوران زیرک اینکر دوست کو سمجھ آ گئی تھی کہ اس کے سامنے کوئی سیاسی گرو نہیں بلکہ ایک مزاح نگار بیٹھا ہے چنانچہ اب میرا ’’چیزا‘‘ لینے کی باری اس کی تھی۔ اس نے کہا ’’لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کا مطالبہ قائداعظم نے آپ کے مشورے سے کیا تھا‘‘ میں نے اس کی تردید بھی مناسب نہیں سمجھی اور کہا ’’ہاں مگر میں اُس وقت عالمِ ارواح میں تھا اور ظاہر ہے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھا، عالمِ رویا میں قائداعظم سے ملاقاتیں رہتی تھیں، میں نے پہلی ملاقات ہی میں انہیں کہہ دیا تھا کہ قائد محترم پاکستان کا قیام ناگزیر ہے اور اللّٰہ نے یہ کام آپ ہی سے لینا ہے‘‘ اور پھر یہ کہتے ہوئے میں نے بھرپور قہقہہ لگایا اور اس میں میرے اینکر دوست کا قہقہہ بھی شامل تھا۔