مدثر اعجاز، لاہور
ماہرینِ نفسیات کا مانناہے کہ ’’ہر انسان بنیادی طور پر اچھی فطرت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘ اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ایک بچّہ دُنیا میں آنکھ کھولتا ہے، تو اس کا ذہن سادہ سلیٹ کی مانند کورا ہوتا ہے، مگر جوں جوں اُس کی عُمر بڑھتی جاتی ہے، وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھتا جاتا ہے۔ اگر وہ ایک اچھے، پاکیزہ ماحول میں پرورش پاتا ہے، تو پاکیزہ فطرت کا حامل ہوگا، بصورتِ دیگر اس کی عادات و اطوار میں بُرائی غالب رہنے کا احتمال رہتا ہے۔ علمائے کرام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تعلیم و تربیت اور ماحول کسی انسان کو نیک یا بدبنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انسان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس کی اچھی یا بُری عادات صرف اس کے خاندان ہی پر نہیں، پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اور ایک بہتر معاشرہ وہی کہلاتا ہے، جس میں افراد انفرادی طور پر اچھے کردار کے حامل ہوں۔ چوں کہ انسان پیدایشی طور پر بُری عادات کا مالک نہیں ہوتا، وہ بُری عادتیں اپنے ماحول سے سیکھتا ہے، لہٰذا انسان کی اصلاح بھی ممکن ہے۔ ذیل میں چند ایسی عادات کا، جن سے خاندان کا سُکون اور معاشرے کا حُسن متاثر ہوسکتا ہے، جائزہ لیا جارہا ہے، نیز، ان کے تدارک کے لیے چند اہم مشورے بھی درج ہیں۔
٭جھوٹ بولنا: ماہرِنفسیات ڈاکٹر لیوس(Dr.lewis)کے مطابق جھوٹ بولنا وہ سب سے پہلی بُری عادت ہے، جو بچّہ ڈھائی سال کی عُمر میں سیکھنا شروع کرتا ہے،جب کہ اسکول جانے کی عُمر میں یہ عادت جڑ پکڑ جاتی ہے۔ ایک بالغ انسان بالعموم پانچ وجوہ کی بنا پر جھوٹ بول سکتا ہے۔ خود کو یا کسی دوسرے کو شرمندگی سے بچانے کے لیے، دولت یا عزّت کے حصول کی خاطر، کوئی پُرانا جھوٹ چُھپانے، کسی کو نقصان پہنچانے اور کسی کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جھوٹ بولنے کی عادت پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ تو یہ مشکل ضرور ہے، مگر نا ممکن نہیں۔ عام طور پر سب کو خوش رکھنے کے لیے بعض اوقات جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ ہر کسی کو خوش رکھنے کی کوشش کریں، نہ بغیر سوچے سمجھے وعدے کریں۔ اور ہمیشہ خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش ،کبھی نہ کی جائے۔ قناعت سے کام لیں، حسد سے گریز کریں۔ خود نمائی اور خود ستائی سے اجتناب برتیں۔
٭مَن مانی، ہٹ دھرمی: اس کے اثرات اوائل عُمری ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ والدین کا بے جا لاڈ پیار اور ہرجائز و ناجائز فرمایش پوری کرنے سے بچّوں میں یہ عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ ضدّی انسان نہ صرف خود مشکلات میں گِھرا رہتا ہے، بلکہ اپنے اس رویّے سے دوسروں کہ لیے بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
کوشش کی جائے تو اس بُری عادت سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کی ہر ضد پوری نہ کریں، تاکہ ابتدائی عُمر ہی میں اس عادت کو پختہ ہونے سے روک لیا جائے۔ کسی دوسرےسے متعلق بلاوجہ کوئی منفی رائے قائم مت کریں۔ ہمیشہ تاثر قائم کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔ دوسروں کی باتوں کو غور سے سُننے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ ناراضی سے بہتر ہےکہ کُھل کر بات کرلی جائے۔ زندگی میں کسی نیک مقصد کا تعیّن کریں اور اس کے حصول کے لیے تمام تر توانائیاں بھی خرچ کریں۔
٭بغض، حسد، کینہ : ان عادات کا شکار فرد ہر وقت ذہنی تناؤ اور تنہائی کا شکار رہتا ہے اور کبھی بھی معاشرے کا اچھا رُکن نہیں بن سکتا۔ ایسے افراد سے وابستہ دیگر افراد بھی بے سُکون رہتے ہیں۔ان بُرائیوں سے نجات کے لیے دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کی عادت ڈالیں۔ جب بھی کسی کے بارے میں کوئی اچھی خبر سُنیں، تو خود سے موازنہ کیے بغیر خوشی کا اظہار کریں۔ حسد و کینہ میں مبتلا افراد اپنی زندگی میں موجود نعمتوں سے بے خبر اور خواہشات کے غلام ہوتے ہیں،لہٰذا اُنھیں ناشُکری کے بجائے اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں کا شُکر ادا کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے، نعمتوں سے سرفراز کرنے والی ذاتِ باری تعالیٰ، کفرانِ نعمت پر نوازشات واپس بھی لے سکتی ہے۔
٭چُغل خوری: اس عادت سے نجات کے لیے اپنی زبان پر قابو پانا سیکھیں۔چغل خور کی سزا اور انجام کے بارے میں دینِ اسلام میں بڑے واضح احکامات موجود ہیں، انہیں گاہے بگاہے پڑھتے رہیں، تاکہ دِل میں خوفِ خدا پیدا ہو سکے۔
٭تشدد آمیز رویّہ: کبھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تشدّد انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے، مگر اب محقّقین اس بات پر متفق ہیں کہ تشدّد کی عادت بھی انسان اپنے ماحول ہی سے سیکھتا ہے۔ اس کی ابتدا گھریلو تشدّد سے ہوتی ہے، جو آگے جا کر معاشرے کا سُکون تباہ کر دیتی ہے۔ جسمانی تشدّد کی روک تھام کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ظلم برداشت کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ خاموش رہنے کے بجائے آواز اُٹھائیں۔ ماہرینِ نفسیات کے نزدیک پُرتشدّد شخصیت کسی ذہنی بیماری یا محرومی کا سبب ہوسکتی ہے،لہٰذا اس عادت میں مبتلا فرد کو ماہرِ نفسیات سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔