• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں او آئی سی کانفرنس کے انعقاد کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ کانفرنس کے ذریعے ’’سفارتی محاذ‘‘ پر متحرک سرگرمیوں کے سلسلہ کو سیاسی اور عسکری قیادت کے مشترکہ لائحہ عمل کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ خطے میں افغانستان کی نئی حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحا ل نے کئی خطرات اور خدشات کے اندیشوں کی نشاندہی کی تھی۔ 

چنانچہ اس فضا کے مقابلہ کی خاطر سفارتکاری کے ماہرین اور دفاعی مہارت رکھنے والوں کی ایک ’’خفیہ ٹاسک فورس‘‘ کو تشکیل دیا گیا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کے لئے بعض کلیدی عہدے داروں کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے ’’گرین سگنل‘‘ کے بعد ہی او آئی سی کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا تھا؟۔

دو طاقتور وفاقی وزیر

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں دو وفاقی وزراء کی طرف سے ’’اقربا پروری‘‘ کے واقعات کی کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ وزراء میں سے ایک کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق سندھ سے ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ایک وفاقی وزیر نے بعض اہم عہدوں پرتعیناتیوں کے لئے اپنے پرانے دوستوں کو ترجیح دی ہے اور انہیں ’’بھاری تنخواہوں‘‘ پر رکھا گیا ہے۔ 

جبکہ اس کے علاوہ ’’خاص عزیزوں‘‘ کوبھی نوازا گیا ہے۔ دوسرے وفاقی وزیر نے اپنی وزارت میں ’’منظور نظر‘‘ حضرات کو اعلیٰ عہدوں پر لگایا ہے جس پر ان کی پارٹی کے رہنما بھی نالاں ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں وفاقی وزراء کو ’’طاقتور ہاتھوں‘‘ کی پشت پناہی حاصل ہے؟۔

سابق پولیس افسر کی دھوکہ دہی

٭صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک سابق آئی جی کی ’’دھوکہ دہی‘‘ کے واقعات کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہناہے کہ مذکورہ سابق اعلیٰ پولیس افسر نے سیاسی میدان میں اترنے کے لئے حکومتی جماعت میں شمولیت بھی اختیار کی تھی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک دوست سے لاکھوں روپے کی خطیر رقم ادھار کے طور پر لی تھی جو کہ اس دوست نے بیرون ملک سے بھیجی تھی۔ 

مذکورہ دوست کی اچانک وفات کےبعد مرحوم کے بیٹے نے رقم کی واپسی کے سلسلہ میں کئی بار سابق آئی جی سے رجوع کیا لیکن ٹال مٹول کے بعد اسے انکار کردیا گیا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مذکورہ پولیس افسر کے بارے میں اس قسم کی اوربھی شکایات سامنے آئی ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’متاثرین‘‘ اس کے ’’اثر و رسوخ‘‘ کی وجہ سے بے بس ہیں؟۔

تازہ ترین
تازہ ترین