• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دھرنا ختم: حکومت کو مطالبات پر عملدرآمد کیلئے فوری اقدامات اُٹھانا ہوں گے

گوادر میں حق دو تحریک 32 کے دھرنا کے بعد صوبائی حکومت کے ساتھ کامیاب تحریری معاہدئے کے بعد ختم کردیا گیا ، قبل ازیں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو ، وفاقی وزرا اسد عمر ، زبیدہ جلال ، صوبائی وزراء سید احسان شاہ ، میر ظہور احمد بلیدی ، اکبر اسکانی کے گوادر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن سے مذاکرت کے تین دور ہوئے جس کے بعد بلوچستان حکومت نے دھرنا شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے اور 11 نکاتی معاہدہ طے پایا جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے دستخط کئے جبکہ حکومت بلوچستان نے مولانا ہدایت الرحمٰن کا نام بھی فورتھ شیڈول سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

معاہدے کے تحت گوادر میں غیر قانونی فش ٹرالنگ پر مکمل پابندی عائد ہوگی ، بارڈر ٹریڈ کی نگرانی ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی جا ئے گی ، مکران ڈویژن میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے گی ، وزیراعلیٰ گوادر کے ماہی گیروں کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کریں گے ، ایکسپریس وے کے متاثرین کے نقصانات کا دوبارہ سروے کرکے معاوضہ دیا جائے گا ، حق دو تحریک کے کارکنوں کے خلاف قائم مقدمات فوری طور پر ختم کئے جائیں گے ، دھرنا کے بعد حق دو تحریک کے کسی کارکن کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ 

سمندری طورفان سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد کیلئے ڈی سی آفس لائحہ عمل طے کرے گا ، معاہدے کے مطابق وفاقی اور صوبائی محکموں میں معذوروں کے کوٹہ پر عمل ، مکران کے عوام کی چادر اور چاردیواری کے تقدس کا احترام کیا جائے گا ، کوسٹ گارڈ اور کسٹم پکڑی گئی بوٹس ، کشتیاں اور لانچوں کو ریلیز کرنے کیلئے تعاون کریں گے ، کامیاب معاہدئے کے بعد ایک ماہ سے جاری دھرنے کے اختتام پر جہاں صوبائی حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا مگر دھرنا کے اختتام پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان دھرنا کے بعض شرکا میں پانچ پانچ ہزار روپے تقسیم کررہے ہیں جس سے حکومت کے لئے کچھ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ 

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ممتاز قانون دان امان اللہ کنرانی نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس اقدام کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گوادر دھرنا کے اختتام پر پیسوں کی تقسیم سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور توہین عدالت کے مرتکب اقدام ہے ، آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند اور ہر عوامی عہدے پر فائز شخص آئین کے تحت اس بات کا حلف اٹھا کر عہد کرتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرئے گا۔ 

اسلام میں خیرات صدقات کے بارے میں ہدایت ہے کہ اگر دائیں ہاتھ کو دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے اور آئین کے بنیادی حق کے تحت آرٹیکل 14 میں اس کی ضمانت دی گئی ہے مگر 16 دسمبر کو گوادر دھرنے کے اختتام پر آئین اور عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں جس کی وجہ سے بطور شہری میں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے آئین کی بالادستی اور عدلیہ کے فیصلوں کے احترام اور شہریوں کی عزت نفس کی تحفظ کیلئے آئینی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان و صوبائی وزیر سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے گوادر دھرنا کے شرکاء میں پیسے تقسیم کرنے کے حوالے سے اعتراضات کو پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غریبوں کو چند پیسے دینا حکومت مخالف عناصر کو ہضم نہیں ہورہا ، پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کی خواہش ہے کہ غریب اور مستحق افراد کی بجائے سب کچھ ان کی جیب میں جائے ، وزیراعلیٰ بلوچستان نے صوبے کی روایات کی پاسداری کی ان پر تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض عناصر حق دو تحریک اور حکومت بلوچستان کے درمیان معاہدے سے خائف ہیں اسی دوران جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری و حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا بھی اس حوالے سے موقف سامنے آیا ہے۔ 

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے گوادر دھرنا سے واپسی کے موقع پر خواتین اور بچوں میں نقد پیسے تقسیم کرنے کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے دھرنے سے واپسی کے موقع پر خواتین اور بچوں میں نقد پیسے تقسیم کرنے پر تحریک کے مخالف اور منفی ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے منفی پروپیگنڈے کا بازار گرم کررکھا ہے۔ 

اس عمل کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ، بلوچ عوام اپنے حق کی خاطر اپنے خرچ پر 32 دن دھرنے پر بیٹھے وہ کس طرح اپنے ضمیر بیچ سکتے ہیں جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سنجیدہ سیاسی حلقوں کا اس سلسلے میں یہ تجزیہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو یوں پیسے تقسیم کرنے سے گریز کرتے ہوئے گوادر کے عوام کو درپیش بڑئے مسائل کے حل کے لئے دھرنا کے شرکا کے مطالبات سے ہٹ کر ایسے بڑئے عوامی اعلانات کرنے چاہیں تھے جن سے وہاں کے عوام کی زندگیوں پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے اور ان کے مسائل میں کمی آتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ نے چند لوگوں میں نقد پیسے تقسیم کرکے ایک نئی بحث چھیڑ دی، جہاں حکومت گوادر دھرناختم کرانے میں کامیاب ہوئی ہے تو اب اب اسے دھرنا کے شرکا کے مطالبات پر عملدرآمد کے لئے تیزی سے اقدامات اٹھانے ہوں گے اس سے ایک جانب گوادر کے عوام کو درپیش مسائل میں کمی ہوگی تو دوسری جانب یہ صوبائی حکومت کا عوام پر اپنا اعتماد بحال کرنے کا ایک موقع بھی ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین