عالمِ اسلام کی پہلی منتخب اور کم عمرترین خاتون وزیراعظم کا اعزاز جہاں بےنظیر ہے، وہیں یہ اعزاز بےنظیر کردار کا مرہونِ منت ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی 30سالہ سیاسی جدوجہد جمہوریت، رواداری، آزادیٔ اظہار اور سماجی و معاشی مساوات سے عبارت ہے۔ بی بی کی زندگی میں ہلچل، رنج و الم اور فتوحات سب ہی کا اظہار ہوتا ہے۔ والد اور دو بھائیوں کی شہادت، والدہ، شوہر اور خود اپنی قید و بند، جلاوطنی، جھوٹے مقدمات، انتہائی غیظ اور بدترین الزمات بھی بےنظیر بھٹو کو اپنے مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے نہ روک سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں آمریت اور انتہا پسندی کو جس دلیری اور جرأت کے ساتھ بی بی نے للکارا ہے، اِس کی مثال نہیں ملتی۔
جنرل ضیاء کے سیاہ دور میں جب آئین کو چند صفحوں کی کتاب سمجھ کر پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ جمہوریت کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا۔ ایک مخصوص قسم کی مذہبی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ آزادیٔ اظہار پر قدغن لگایا گیا۔ سماج کو اجارہ داریوں کے ذریعے برباد کر دیا گیا اور معاشی مساوات کے برخلاف ارتکاز دولت کے ذریعے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہونے لگا تو بھٹو کی بےنظیر بیٹی نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھانے کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ وہ دور تھا جب بڑے بڑے نام نہاد سیاسی رہنما مارشل لا کی حکومت کو تسلیم کر چکے تھے۔ تو ایسے میں بی بی نے آمریت، انتہا پسندی، سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’میں باغی ہوں‘‘۔
طاقت کے زعم میں مبتلا آمر سمجھتے تھے کہ بندوق کے آگے اس نہتی لڑکی کا کھڑا ہونا ناممکن تھا لیکن بی بی کے عزم و حوصلہ نے ان طالع آزمائوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں رجعت پسندی نے انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کا سفر انتہائی تیزی سے طے کیا۔ افغان جنگ میں امر یکہ اور مغرب کے مفادات کے تحت ضیاء حکومت کا پاکستان کو اس میں ملوث کرنا پاکستان کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوا اور یہاں سے دہشت گردی کا ایسا بھیانک آغاز ہوا جس نے عفریت بن کر ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنرل ضیاء کے دور سے لے کر جنرل مشرف کے دور تک ریاست اور اُس کے تمام ادارے یا تو دہشت گردوں کے ہمدرد تھے یا اُن کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا اِن ریاستی اداروں کے زیر اثر تمام سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں کی معاون و مدد گار تھیں۔ محترمہ بےنظیر بھٹو وہ واحد سیاسی رہنما تھیں جنہوں نے سب سے پہلے دہشت گردی کو پوری طاقت کے ساتھ للکارا۔ اسی لیے محترمہ بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمہ کے لیے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک میں اسامہ بن لادن نے سرمائے کا بےدریغ استعمال کیا۔
جنرل مشرف کے دور حکومت محترمہ بےنظیر بھٹو نے جلا وطنی کے دوران مغربی طاقتوں کو باور کروایا کہ اگر وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو اُنہیں پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کرنا ہوگی اسی دبائو کے تحت جنرل مشرف کو عالمی برادری کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے اور جنرل مشرف نے وردی اُتارنے کا اعلان کیا اور سیاسی قائدین کو ملک واپس آنے کی اجازت دینا پڑی۔ آمرانہ قوتوں کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اور انتہا پسند محترمہ بےنظیر بھٹو سے خائف تھے وہ جانتے تھے کہ بےنظیر بھٹو ہی وہ واحد رہنما تھیں جو ان کے گٹھ جوڑ کو بےنقاب کر کے اُنہیں شکست دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ تاریک ماضی کے یہ نقیب مستقبل کی اس اُمید اور روشنی سے ڈرتے تھے وہ لرزاں تھے کہ بےنظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان کے عوام آمریت کے مقابلہ میں جمہوریت جہل کے مقابلہ میں علم مذہبی جنونیت کے مقابلہ میں رواداری اور انتہا پسندی کے مقابلہ میں اعتدال پسندی کا انتخاب کریں گے لہٰذا ان قوتوں نے بی بی کو ملک واپس آنے سے منع کیا اور کبھی بیت اللہ محسود نے کہا کہ بےنظیر کا استقبال بندوقوں اور بمبوں سے کیا جائے گا اور کبھی جنرل مشرف نے کہا کہ میں بےنظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا مگر کوئی بھی دھمکی بی بی کو خوفزدہ نہ کر سکی۔ کراچی میں خوفناک بم دھماکے اور شہادتیں بےنظیر بھٹو کو آمریت اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہ روک سکے۔
بی بی شہر شہر گائوں گائوں جمہوریت اور امن کا پیغام لے کر جاتی رہی اور دہشت گردوں کو للکارتی رہی۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی آخری للکار آج بھی گونج رہی ہے،’’میرا ملک خطرے میں ہے، اسے کون بچائے گا۔ میں بچائوں گی، آپ بچائیں گے۔ سوات پہ پاکستان کا پرچم کون لہرائے گا، میں لہرائوں گی، آپ لہرائیں گے‘‘۔
اور پھر 27دسمبر 2007کی شام کے مہیب سایوں میں اس دلیر اور جرأت مند آواز کو ختم کرنے کی سازش ہوئی لیکن آپ کسی شخص کو قید کر سکتے ہیں مگر سوچ کو نہیں آپ فرد کو جلا وطن کر سکتے ہیں مگر سوچ کو دیس نکالا نہیں دے سکتے آپ کسی انسان کو قتل کر سکتے ہیں مگر اُس کے نظریہ کو قتل نہیں کر سکتے۔ آج کے نام نہاد حکمران دہشت گردوں کو قومی دھارے میں لانے کا ارادہ ظاہر کرکے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر رہے ہیں، یہ وہی دہشت گرد ہیں جنہوں نے بی بی کو شہید کیا اور ہمارے جوانوں اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ دہشت گردوں کی وکیل اور ہمدرد حکومت اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ بے نظیر بھٹو کی سوچ اور نظریہ کوان کے وارث آگے بڑھاتے ہوئے ان قوتوں کو آج بھی للکار رہے ہیں:
دو حق و صداقت کی شہادت سر مقتل
اٹھو، کہ یہی وقت کا فرمان جلی ہے
ہم راہر و دشت بلا روز ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابن علیؓ ہے