• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمیونیکیشن کے غلط استعمال سے ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے اور اس سے طلبا سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ خیالات و نظریات کی منتقلی کا عمل معاشرے کی اہم ذمہ داری ہے، غلط اطلاعات کے سبب ملک کی معیشت، سیاست اور دیگر شعبوں پر بھی غلط اثرات مرتب کرتے ہیں جس سے ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ کسی دور میں پرنٹ میڈیا کی بہت اہمیت تھی اور الیکٹرانک میڈیا ابھی محدود تھا۔ میڈیا کے یہ ٹولز عوام کی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کر رہے تھے لیکن جب سے سوشل میڈیا آیا ہے تب سے لوگوں میں اضطراب پیدا ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بھی تیز اور با اثر ہے حالانکہ اطلاعات کی اکثریت غلط ہوتی ہے اور ایسے ہی پھیل جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے سبب نئی نسل خراب ہورہی ہے اور عوام میں خوف کا ایک پہلو بھی سامنے آیا ہے جو سوشل میڈیا پر ریمارکس یا کمنٹس شیئر کرنے سے لڑائیاں بھی ہوتی ہیں جس سے معاشرتی بگاڑ بڑھتا ہےاور ادیبوں اور شعراء میں مسئلے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کیا دنیا بھر میں سوشل میڈیا طاقتور ترین میڈیا کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کمیونیکیشن کا عمل تیز تر ہو گیا ہے اور خبر ایک منٹ میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ کسی دور میں پی ٹی وی اور ایس ٹی این ہوتا تھا اور چند ایک اخبارات ہوتے تھے اب اخبارات کی بھرمار ہے۔ اخلاقی اور صحافتی اقدار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے میڈیا میں بےشمار نئی چیزیں شامل ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں صحافتی تنظیمیں بھی اس شعبہ کے مسائل کو اجاگر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ دنیا کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اطلاعات کی اہمیت بھی دوچند ہو گئی ہے۔

اب سوشل میڈیا ایک جنگ کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا سبب بھی ہے۔ بچے اب پڑھائی کی بجائے سوشل میڈیا کے استعمال پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ تعلیم میں اگرچہ یہ سہولت کار کا کام بھی کرتا ہے لیکن فیس بک، یوٹیوب اور وٹس ایپ نے بچوں کو تعلیمی رجحان سے دور کر دیا ہے بلکہ اب عام آدمی بھی 24گھنٹوں میںسے 4گھنٹے سوشل میڈیا استعمال کرتاہے، بچوں اور طلبا میں اس کے سبب پب جی کے کھیل کے استعمال میں اضافہ بھی ہوا ہے بلکہ بہت سے بچے اس کھیل کے سبب خود کشی کا شکار بھی ہوئے ہیں اور نفسیاتی مریض بھی بنے ہیں۔اِن حالات میں والدین کی بچوں پر نگرانی بہت ضروری ہو گئی ہے تاکہ بچوں کا مستقبل خراب نہ ہو اور وہ اپنے مقاصد سے دور نہ ہوں۔

طلبا و طالبات نے سوشل میڈیا کا بےدریغ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس سے ان کی پڑھائی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،یہ سوسائٹی اور حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے، اس کے سبب طلبا کے رجحانات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ معاشرے میں بےشمار لڑائی جھگڑوں کا بھی یہ سبب بنا ہے، طلبا کا پڑھائی کے دوران موبائل فون کا استعمال انتہائی نقصان دہ ہے۔ سوشل میڈیا نے معاسرہ میں خوف اور دوڑ کا عنصر شامل کر دیا ہے۔ اب انفرادی اور اجتماعی سر گرمیاں اس کا محور بن گئی ہیں، یہ اب اخبار اور ٹی وی کا کام بھی کرتا ہے اور لوگوں کو فوری معلومات بھی دیتا ہے، یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو گلوبل دنیا کی شکل اختیا ر کر چکا ہے۔ والدین معاسرہ اساتذہ اب اس کڑی کے ذمہ دار افراد ہیں لیکن اس کے استعمال میں احتیاط لازم ہے، تعلیم کے سبب ہی ملک معاشی ’’سیاسی‘‘ سماجی ترقی کر تے ہیں، سوشل میڈیا پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں لیکن اس کے نتائج نہیں برآمد ہوئے۔

سوشل میڈیا میں بہت وسعت آ گئی ہے جس سے ہم نے اپنے بچوں کو بچانا ہے اور ان کی پرورش اور تربیت کرتے وقت ان کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کر کے اسلامی ریاست کا مفید شہری بنانا ہے، وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ بچوں کو کارٹونوں سے دور رکھیں اور ان کی زندگیوں کو اسلامی طریقوں پر استوار کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ سوشل میڈیا سے بچاؤ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی اقدامات کرنے چاہیں تاکہ ہم اپنے بچوں کی سمت درست رکھ سکیں ان کی تعلیم پر توجہ دینے کے علاوہ ان کی باقی غیر ضروری مصروفیات کو ختم کرنا ہوگا اور بڑوں کو بھی شوشل میڈیا کی دوڑ سے دور رکھنے کی ضرورت ہے، یہ ایک ایسا ڈر ہے خوف ہے جو ہمیں اپنے اسلاف کی روایات سے دور کرتا جا رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین