ماہِ دسمبر پاکستان کیلئے نہایت دکھ اور رنج و الم کا مہینہ ہے جس میں سقوط ڈھاکہ، سانحہ آرمی پبلک اسکول اور بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے دلخراش واقعات پیش آئے۔ زندہ قومیں ملک کی قسمت بدلنے والے لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے قریبی تعلق رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوئی جس میں ہم نے شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ گزارے یادگاری واقعات پر گفتگو کی جو آج میں شہید بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی پر شیئر کرنا چاہوں گا۔ شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ کی تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے صنعتوں کی بحالی پرایوارڈ دیا تھا۔ بعد میں محترمہ کی درخواست پر میں انہیں بیمار صنعتوں کی بحالی، ملکی معیشت اور توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز دیتا رہا جس کی بناء پر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی، وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کرگئیں۔ بی بی عموماً اپنے خصوصی طیارے کی روانگی کے بعد وفد کے ارکان کو فرداً فرداً بلاکر ان کی تجاویز اپنے دورے کے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں۔
2002ء کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جو میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات عامہ کی کمیٹی فارن لائژن کی ذمہ داریاں دیں۔ میں دبئی میں جلاوطنی کے دوران محترمہ کے قریب رہا۔ ہم نے اپنے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرز اور وزیراعظم ٹونی بلیئر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی اوربالآخر بینظیر بھٹو نے 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کے ساتھ ایک چیلنج تھا کہ ہم کس طرح ان کا شایان شان استقبال کریں۔ میں استقبالیہ کمیٹی میں شامل تھا اور دنیا نے دیکھا کہ بلاول ہائوس کا میرا حلقہ NA-250محترمہ کی خوبصورت قدآور تصاویرسے شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بناء پر اپنے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ہمراہ دبئی سے کراچی آنے کیلئے بھیجا۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میری پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی ہوئی تھی بلکہ طیارے میں سوار دیگر رہنمائوں کو بھی یہ کیپ پہننے کا کہا تھا جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا۔
کراچی میںمحترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں میرے علاوہ شیری رحمن، رضا ربانی اور دیگر اہم پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ سیکورٹی کے پیش نظر ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی ذاتی حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں، میں نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری سے رابطہ کرکے بینظیر بھٹو کی الیکشن کمیشن میں ذاتی حاضری سے استثنیٰ حاصل کیا تاہم رحمٰن ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا، جسے میں نے فخریہ انداز میں محترمہ کو پیش کیا۔ انہوں نے اجازت نامہ دیکھ مجھے Welldone کہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نےازراہِ تفنن محترمہ سے کہا۔ ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ نے جواب میں کہا۔’’نہیں صرف ’’بیگ ‘‘کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ کی تعریف میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ محترمہ نے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے الیکشن میں مجھے دوبارہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250کا پارٹی ٹکٹ دیا اور بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔
شام کو میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی رہائش گاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی اپنی تقریر شروع کی، تھوڑی دیر میں آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں اپنے دوست فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس پہنچاجہاں پیپلزپارٹی کے سینٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنی عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے کے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ بینظیر بھٹو ہمیشہ کیلئےہمیں چھوڑ گئی ہیں۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کے بلیک بیری فون سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے۔‘‘
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔میں NA-250سے الیکشن جیت گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی ایم کیو ایم کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کی وجہ سے زرداری صاحب نے دوبارہ گنتی ہونے اور میرے جیتنے کے باوجود مجھے اس نشست سے دستبردار ہونے کا کہا جس کا اعتراف یوسف رضا گیلانی نے حالیہ ملاقات میں کیا اور اس کا مجھے آج بھی افسوس ہے۔