افتخار عارف نے کہا تھا ؎ گرد اتنی کہ سُجھائی نہیں دیتا کچھ بھی … شور اتنا ہے کہ آوازِ جرس ٹوٹتی ہے… منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دِل سال بہ سال… ایسا لگتا ہے، گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے۔ سال 2020ء (کورونا ائیر) پہ تو یہ شعر کچھ ایسے صادق آیا کہ ہر دوسرا شخص سال بَھر اِسی خوف میں مبتلا رہا کہ ’’بس، گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے‘‘۔ کتنے ’’دُرِّنایاب‘‘ تو یوں آنکھوں کے سامنے رزق خاک ہوئے کہ دِل اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔ آنکھوں دیکھی جھٹلا دینا چاہتا ہے اور پھر جب عالم یہ ہوا کہ ؎ مقتل کُھلے ہوئے ہیں، مقفّل خدا کا گھر۔ اللہ نے اپنے گھر تک کے دروازے ہم پر بند کردئیے، تو جیسے مایوسی و نااُمیدی نے چہار سُو گھیرے ڈال لیے۔
عجب کشمکش کا عالم تھا۔ رہ رہ کے خیال آتا ؎ مرنا ہے کہ جینا ہے، اِک بات ٹھہر جائے۔ مگر… ؎ رکھا نہ کورونا نے کسی اِک کا بھرم بھی… مئے خانہ بھی خالی ہے، کلیسا بھی، حرم بھی۔ ایک نادیدہ وائرس نے پورا کاروبارِ حیات ہی جامد و ساکت کرکے رکھ دیا۔ ربِّ کعبہ نے اشرف المخلوقات کی حد سے بڑھی نافرمانیوں، بے اعتدالیوں کے خلاف ایسا ’’سومو ٹو ایکشن‘‘ لیا کہ کُل عالم سر، منہ ڈھانپ گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔ طاقت و گھمنڈ، غرور و سرکشی کے ایسے ایسے بُت مسمار ہوئے کہ جس کا ماضی میں تصوّر بھی محال تھا۔
ایسے میں ایک کمپیوٹر انجینئرکی بےساختہ مانگی گئی دُعا بہت ہی معصومانہ لگی کہ ’’ڈئیر گاڈ! پلیز اَن اِنسٹال 2020ء اینڈری اِنسٹال اِٹ۔ اِٹ ہیز اے وائرس‘‘ مگر… بات یہ ہے، جب ’’کُن فیکُون‘‘ کہہ دیا جائے (وہ کہتا ہے) ’’ہو جا، پس وہ ہوجاتا ہے‘‘ تو پھر سمجھیں، فیصلے پر نظرِثانی کا وقت گزر چُکا۔ سو، لگ بھگ پورا سال ہی خوف و دہشت، رنج و الم کی کیفیات کے ساتھ ہی گزرا۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں کہ ؎ آج گزرا ہے وہی کرب کا، کہرام کا سال۔
تو بالآخر کتابِ کائنات کا ایک سخت مشکل، بدترین اور خوف ناک ترین ورق پلٹا ہی گیا۔ گرچہ انسانی تاریخ میں اس سے بھی کہیں خطرناک آفات، وبائوں کا ذکرملتا ہے، لیکن کم از کم موجودہ نسل نے تو اس قدر تکلیف دہ، اذّیت ناک وقت پہلے نہیں دیکھا کہ محض 365 دِنوں میں آٹھ کروڑ کے لگ بھگ افراد ایک مہین سے وائرس کی گرفت میں آئے اور اُن میں سے 17لاکھ سے زائد لقمۂ اجل ہی بن گئے۔
2020ء کے عالمی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں، تو چین کے شہر، ووہان سے پُھوٹنے والی وبا نے تو عالمی آفت کی شکل میں جو چرکے لگائے، سو لگائے، عمومی طور پر بھی دُنیا آگ و خون کے رنگ ہی میں رنگی دکھائی دی۔ ستمبر 2019ء میں آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ نئے سال کی پہلی سہ ماہی تک 33 انسانوں، 3 ارب سے زائد معصوم جانوروں (ہلاک یا دربدر ہوگئے) اور کئی ہزار ہیکڑزرقبےپرمحیط درختوں، گھروں کو خاکستر کر گئی، تو لبنان کے دارالحکومت، بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والا دھماکا بھی تاریخ کا سب سے شدید غیرجوہری دھماکا ثابت ہوا، جس نے شہر کے بڑے حصّے کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔
پھر امریکا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد شروع ہونے والے پُرتشدّد فسادات، ایرانی القدس فورس کے سربراہ، جنرل قاسم سلیمانی، ایرانی سائنس دان، محسن فخری زادہ کے قتل، برطانیہ کی یورپیئن یونین سے علیحدگی اور کئی عرب مُمالک میں اسرائیل کو تسلیم کیےجانے جیسے واقعات بھی اِسی سال کے روزنامچے میں درج ہوئے۔ جب کہ دُنیا بَھرکی عبادت گاہوں کی بندش، آذربائیجان، آرمینیا جنگ، مقبوضہ کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام، لبنان، عراق کی صُورتِ حال اور فرانس میں حکومتی سرپرستی میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جیسے المیوں سے دِل ہی نہیں، آنکھیں بھی لہو رنگ ہی رہیں۔ وہ کیا ہے ناں کہ ؎ خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے… غم زیادہ ہیں، لفافے میں نہیں آئیں گے… مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہوسکتی… درد اتنے ہیں، خلاصے میں نہیں آئیں گے۔
گرچہ امریکی صدر کی تبدیلی سے امریکا کی پاکستان سے متعلق پالیسیوں میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن بہرحال فاترالعقل، بڑبولے حکم رانوں میں سے ایک کم ہوجانے کی کمینی سی خوشی ضرور ہوئی۔ اِسی طرح پرنس ہیری، میگھن مارکل کی شاہی خاندان سے علیحدگی بھی اچھی لگی کہ ہڈ پیر سلامت ہوں تو بندہ کما کے کھاتا ہی اچھا لگتا ہے۔ یہ کیا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عُمر بَھر عیاشی کی جائے، صرف اس بنیاد پر کہ آپ کا جنم ایک عالی شان خاندان میں ہوا ہے، جس میں آپ کا کوئی کمال ہی نہیں۔
نیز، افغان امن مذاکرات میں امریکیوں کو طالبان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے دیکھنا بھی باعثِ مسرت تھا کہ ’’وہ (مالکِ کون و مکان) جس کو چاہتا ہے، عزّت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، رسوا کردیتا ہے‘‘۔ غرور سے تَنے ہوئے سَر کب، کیسے قدموں تلے روندنے ہیں، یہ وہی جانتا ہے۔ اور قریباً پورے سال میں ملنے والی پہلی خوش خبری، کورونا ویکسین کی تیاری کی اطلاع سے تو روح اب تک سرشار ہے، مگر تیسری دُنیا کے عوام، خصوصاً ہم جیسی مفلوک الحال، قرضوں کی مئے ہی کے نشے سے چُور قوم کے جسم و جاں کو یہ سرشاری کب میسّر آئے گی، ہنوز ایک سوالیہ نشان ہے۔
مُلکی منظر نامے پر تو نگاہ ڈالنے کو جی نہیں چاہتا، لکھنا تودُور۔ وہ غالبؔ نے کہا تھا کہ ؎ دردِ دِل لکھوں کب تک، جاؤں اُن کو دِکھلادوں …انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا۔ مگر کیا کریں، رہنا بسنا، جینا مرنا تو یہیں ہے۔ ہونٹ بھینچ لیں، عقل وشعور کا گلا گھونٹ بھی دیں، آنکھیں تو جب تک اللہ بند نہ کرے، بند نہیں ہوسکتیں۔ موٹر وے سانحے سے لےکر اورنج ٹرین، بی، آرٹی کے افتتاح (بالآخر)، کاون کی کمبوڈیا روانگی،’’کچراچی‘‘ کی طوفانی بارشوں اور نتیجتاً ’’کراچی پیکیج‘‘ نامی ڈرامے کی عکس بندی، پی ڈی ایم کی تخلیق، جلسےجلوسوں، تقریروں، پریس کانفرنسوں، نیب کی پُھرتیوں، عدالتی لن ترانیوں اور… کورونا کی پہلی لہر پر حکومت کےعُمدہ کنٹرول جیسے صدی کے سب سے بڑے لطیفے (کہ کورونا سے نسبتاً کم نقصان میں، سوائے اللہ کے خاص کرم کے قطعاً کوئی امر مانع نہ تھا، نہ عوام کی کوئی کوشش، نہ حکومت کی کوئی کاوش) نیز، حکومتی گماشتوں( ایک سے بڑھ کر ایک شاہ کار) کےعجیب و غریب فلسفوں، منطقوں اور آئیں بائیں شائیں پر علاوہ سَر پیٹنے کے کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔
بی آر ٹی خدا خدا کرکے چلی، تو کیا ’’صاف چلی، شفّاف چلی‘‘ کہ کبھی آگ لگ گئی، تو کبھی بات دھکّا اسٹارٹ تک آگئی۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر عدم سہولتوں کے سبب اُجڑگیا۔ بچّوں کی مَن پسند، تفریح، کاون مُلک چھوڑ گیا، جشن منایا جارہا ہے۔ پوری قوم ’’ارطغرل‘‘ دیکھنے میں لگی ہے، بلکہ لگا دی گئی ہے، مگر مُلک میں کوئی دِن نہیں جاتا، جب کئی معصوم بچّے، بچّیاں جنسی درندگی و حیوانیت کا نشانہ نہیں بنتے ۔
سانحۂ موٹر وے نے تو پورے مُلک کے منہ پہ ایسی کالک تھوپی ہے کہ اب تو اس منہ سے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کانام لیتے بھی شرم آتی ہے۔70 سال کا گند، این آر او، کرپشن کرپشن، چور چور سُنتےکان پک گئے۔ ڈھائی سالوں میں کراچی کی ایک گلی تک صاف نہیں کی گئی، 70سال کا گند کون صاف کرے گا۔ ہاں، مدّت مکمل ہونےپر نمبر ضرور بدل جائےگا، اور پھر اگلی حکومت 70 نہیں،75 سال کے گند کی بات کرتی نظر آئے گی۔
عالم گیروبا کے سبب تو وحشت و دہشت کا عالم رہا ہی، مُلکِ عزیز میں منہگائی کے جِن نے بھی بوتل سے نکل کر جو رقصِ ابلیس شروع کیا، تو تاحال اُس کے تھکنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ لوگوں کو دووقت کی دال، روٹی ہی کے چکّر میں اس قدر اُلجھا دیاگیا ہے کہ اور کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی دَم توڑ گئی ہیں۔ ؎ کھینچوں میں کیا کہ ہر نفس اِک تارِمرگ ہے… یہ زندگی ہے یا کوئی آزارِ مرگ ہے… آنکھوں میں لہلہاتے ہیں آثار زیست کے…سینے پہ دندناتا ہوا بارِ مرگ ہے… سَر پھوڑتا ہے آدمی اپنے وجود سے… اُس کے لیے وجود بھی دیوارِمرگ ہے… یوں زندگی کو سَر سے اُتارا ہے عشق نے…کارِحیات جیسے کوئی کارِمرگ ہے۔
کورونا کی پہلی لہر تو پھر بھی بلا امتیاز آئی تھی، دوسری لہر تو وفاقی وزیرِ تعلیم کی بدولت صرف تعلیم اداروں ہی کے لیے مختص ہو کےرہ گئی کہ علاوہ تعلیمی اداروں کی بندش کے، سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ جن مُمالک کی شرحِ خواندگی 100 فی صد تک ہے، انہوں نے بھی کسی نہ کسی طرح ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کُھلے رکھے۔ اور ہم، جو ناخواندگی (تمام تر خرابیوں، مسائل کی جڑ) کے سبب غربت، بےروزگاری، لاقانونیت کے چُنگل میں پھنستے، دلدل میں دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں، ہمارے لیے سب سے کم اہم شعبۂ تعلیم ہی ٹھہرا۔
آہ و فغاں، نالہ و فریاد، رونا دھونا رقم کرتے تو صفحات کم پڑ جائیں کہ چشمِ بددُور، ہم جس کرائسز اسپیشلسٹ، ماہرِبحران حکومت کے اقتدار میں جی رہے ہیں، بقول جالب ؎ زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ ویسے تو اس مُلک میں میڈیا کے لیے بہت اچھا وقت کبھی آیا ہی نہیں، لیکن پچھلے دو ڈھائی سالوں میں جو افتاد ٹوٹی ہے، ماضی سے مثال ملنا مشکل ہے۔ ہمارے اَن گنت ساتھی بے روزگار ہوئے، تو نہ جانے کتنے جبر و استحصال کا شکار۔ خود ’’جنگ گروپ‘‘ کیسے کیسے عتابوں کا شکار نہیں رہا، مگر صد شُکر کہ تمام تر آلام و مصائب کے باوجود تاحال سروائیو کر رہے ہیں۔
تب ہی ان بدترین حالات میں بھی یہ ’’سال نامہ‘‘ تیار کرنے کے قابل ہوئے۔ پچھلے دو، تین برسوں کی طرح اِمسال بھی ’’سال نامہ‘‘ کم از کم 3 حصّوں پر مشتمل ہوگا۔ پہلا حصّہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ گرچہ سو، ڈیڑھ سو صفحات سے آغاز ہونے والا ’’سال نامہ‘‘ سُکڑتے سُکڑتے بہت کم صفحات تک محدود رہ گیا ہے، لیکن کم صفحات میں بھی ہم نے اپنی ہر ممکن سعی کی کہ کارخانۂ حیات کے کسی ایک شعبے کا کوئی پہلو بھی تشنہ نہ رہ جائے۔
دو، تین شماروں ہی کی شکل میں سہی، آپ کے پاس سال 2020ء کی ایک مکمل دستاویز موجود ہو، جو صرف کتب خانوں ہی کی زینت نہ بنے، آپ کی یادداشتوں میں بھی ایک شان دار اضافے کی صُورت موجود رہے۔ بچپن سے سُنتے آئے ؎ یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔ مگر اصل مفہوم 2020ء کےاختتام ہی پر سمجھ آیا۔
بہرحال، ہم نے 365دِنوں کے ایک پورے سال کو کہ ؎ ہے رَن یہ زندگی اِک رَن، جو برپا لمحہ لمحہ ہے۔ اپنے تیئں چند صفحات میں یک جا کرنے کی بَھرپور کوشش کی ہے۔ دورانِ مطالعہ کوئی کمی بیشی، غلطی، کوتاہی محسوس ہو، تو اپنی آراء سے ضرور مطلع کیجیے گا۔ کچھ سیکھیں، حاصل کریں، پائیں، خوش ہوں، تو داد کے ساتھ ’’جہاد بالقلم‘‘ کے رستے پر گام زن اس ادارے کی بقا و سلامتی، فلاح و ترقّی کے لیے بھی ہاتھ ضرور اُٹھائیے گا کہ ’’ادارے سلامت رہنے چاہئیں، لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں‘‘۔
یاد رہے، ان صفحات میں پیش کردہ تمام تر حالات و واقعات، حقائق، اعداد و شمار 25دسمبر 2020ء تک (شمارہ پریس جانے تک) کے ہیں۔ اس دُعا کہ ؎ گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی…گزشتہ سال کے سُکھ اب کے سال دے مولا… اس التجا ؎ کچھ اپنے اشک بھی شامل کرو دُعائوں میں… سُنا ہے، اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں۔ اور اس اُمید کےساتھ ؎ اے مِرے ہم نفس بس کوئی دِن قفس، یہ مصیبت بھی آخرکو ٹل جائے گی… چائے خانے میں سب یار بیٹھیں گے اور شاعری ہر پیالی میں ڈھل جائے گی… پھر زمینوں پہ اُترے گی اِک روشنی اور گلے مل سکیں گے مسافر سبھی… ہم غریبوں کے اطراف میں پھر خدا دھوپ پھینکے گا اور رات جل جائے گی۔ آپ سب کو سال ِنو مبارک ہو۔
نرجس ملک
ایڈیٹر، جنگ، ’’سن ڈے میگزین‘‘