اس وقت میں زندگی کی 72بہاریں دیکھ چکا ہوں۔ آنے والے اپریل میں 73ویں سالگرہ منائوں گا۔ اس طرح گزشتہ نصف صدی کے واقعات سے آگاہ ہوں۔ زمانی آگاہی کے علاوہ دستیاب مواد، معلومات اور سوچ بچار علم کوجلا بخشتی ہے۔ میںنے ہوش و حواس کے پانچ عشروں کے دوران ممالک، ریاستوں اور معاشروں کے عروج و زوال کو دیکھتے ہوئے کچھ معروضی حقائق سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
جب راقم الحروف نے اس عالم آب و گلِ میں آنکھ کھولی تو دوسال قبل پاکستان معرض وجود میں آچکا تھا۔گویا پاکستان کی عصری اٹھان میرے ساتھ ہوئی۔ میری نظروں کے سامنے اس نے کئی مرتبہ اپنی اننگز کا آغاز کیا۔ کئی مرتبہ آغاز ناکامی سے دوچار ہوا، مصائب اور مشکلات کا ساتھ رہا۔ ہم کبھی ایسا بنیادی قانون نہ بنا سکے جسے آئین کہا جاتا ہے اور جو فعال ہو۔ وہ آئین جو ہمارے پائوں کی زنجیر بننے کی بجائے ہمیں ایک قابل عمل سیاسی، معاشی، تعلیمی نظام دے سکتا ہو۔ اور ہر شعبے میں نظام ہو۔ میں نے عالمی نظام میں تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اینگلو فرانسیسی غلبہ رکھنے والی دنیا کے بعد برطانوی استعمار اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ پھر بہت سی کالونیوں نے آزادی حاصل کی۔ اس کے بعد خود کو سنبھالنے کی جدوجہد کے دورسے گزریں۔
میں یہ کہوں گا کہ اب تک ان میں سے بہت سی ریاستوں نے اس حد تک خود کو سنبھالا ہے کہ وہ منہدم نہیں ہوئیں۔ میں نے ان سب کو تیسری دنیا کا عنوان اختیار کرتے دیکھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتحین نے بریٹن ووڈز کا نظام تشکیل دیا۔ اس نظام نے مارشل پلان کے تحت تباہ شدہ ریاستوں میں زندگی کی روح پھونک دی۔ اس کے بعد اُنھوں نے سابق کالونیوں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے زمرے میں آنے والی ریاستوں میں سے ایک بھی پہلی دنیا میں شامل نہ ہو سکی۔ استعمار تو بھلے ہی منہ کے بل گرگیا لیکن غلامی اب بھی برقرار ہے۔ ہاں، انداز بدل گیا۔ غلامی کی نئی زنجیریں تیسری دنیا پر ڈونر ایجنسیوں اور دیگر ریاستوں کے واجب الادا قرض کی صورت موجود ہیں۔ نوآبادیاتی آقاؤں اور نوآبادیات کے درمیان استحصال کی لازمی مساوات آج بھی پہلی دنیا کا تیسری دنیا پر تسلط یقینی بناتی ہے۔ انہیں اپنی خواہشات کے مطابق کام پر مجبور کرنے کا اختیار اس کے پاس ہے۔ لہٰذا، نئے ورلڈ آرڈر میں خوش آمدید جو ہم پر نصف صدی سے مسلط ہے لیکن بنیادی طور پر یہ اتنا نیا نہیں۔ ہم اب بھی نوآبادیات ہیں۔ اسے نیا استعمار کہتے ہیں۔
پرانے نوآبادیاتی نظام میں نوآبادیاتی مالک مقامی لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے وائسرائے، گورنر، کمشنر اور اس طرح کے افراد کو مقرر کرتا تھا۔ نئے استعمار میں وہ اپنے لوگوں کو ہمارے وائسرائے مقرر نہیں کرتے بلکہ وہ ہمارے لوگوں کو اپنے وائسرائے بنانے کے لیے دور سے کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ ان کو قرضوں، ہتھیاروں اور مراعات کا لالچ دے کرجنگ یا قریب کی جنگوں میں شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ان سے ایسے کام کرواتے ہیں جو ان کے مفادات کے خلاف ہوں۔
آج ’حکومت کی تبدیلی‘ افق پر سے اٹھتے ہوئے برطانوی جنگی جہاز کی طرح خطرناک ہے۔ شروع میںوہ شب خون مارنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ فوجی حکومتوںکے ذریعے عوام کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ پھر تیسری دنیا کو گھیرنے کے لیے ایک دل فریب جال بچھایا گیا، جسے جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت کی جستجو میں تیسری دنیا کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ جس کو وہ جمہوریت کہتے ہیں اُسے انتخابی عمل کے ذریعے استعمار دور سے کنٹرول کرتا ہے۔ یہ نظام اُن کے لیے موزوں ہوسکتا ہے، تیسری دنیا کے لیے نہیں۔ ہم اب بھی ایک ایسے عالمگیر نظام حکومت کی تلاش میں ہیں جو سب کے لیے کام کرے۔ ابھی یہ صرف استعمار کے لیے کام کرتا ہے۔ پرانے زمانے میں ہم استعمار کے ڈرامے کی کٹھ پتلیاں تھے جو ان کے رٹے رٹائے جملے بولتے تھے۔ اس کے بدلے اعلیٰ اعزازات، جاگیریں اور نوآبادیات کی حکومتوں میں اہم نوکریاں مل جاتی تھیں۔ اس انعام واکرام کی کوکھ سے اس حکمران طبقے نے جنم لیا جو بعد میں ہم پر مسلط ہوگیا۔ اب ان سے پوچھیں کہ ان کے مشہور پیش رو کو فلاں فلاں خطاب کہاں سے ملا اور ان میں سے کچھ واقعی اتنی شائستگی رکھتے ہیںکہ اس پر شرمندہ ہولیں لیکن زیادہ تر ناز کریں گے۔ یہاں تک کہ ہمارے آزادی پسند لیڈروں نے بھی ایسے القابات کے لیے گردن خم کی۔ ہمارے عظیم شاعر فلسفی علامہ اقبال کو سر کاخطاب ملا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اب بھی ایک عظیم شاعر اور عظیم انسان ہیں لیکن حالات نے انہیں اس 'اعزازکو قبول کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ اسے اپنی شاعری سے الگ نہیں کر سکتے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ تیسری دنیا کے رہنماؤں کو اٹھاتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں، مثال کے طور پر، انہیں انگلینڈ میں لارڈ بنا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ مجھے لارڈ بنا دیتے تو میں یہ مضمون کبھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ یہ کنٹرول کی ایک شکل ہے جسے ہم تسلیم کرتے یا سمجھتے نہیں ہیں۔ وہ ہمارے بچوں کو اپنی یونیورسٹیوں میں داخلے میں مدد دیتے ہیں جس کے لیے ہم جذباتی طور پر مقروض ہو جاتے ہیں۔ آخر میں تجویز کروں گا کہ ہمیں فرانز فینن کی لاجواب کتاب The Wretched of the Earth کا پہلا صفحہ ضرور پڑھنا چاہئے۔ اس کے بعد آ پ بھی میری سوچ کے دھارے میں شامل ہوجائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)