• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماجد نظامی 

 وجیہہ اسلم ، حافظ شیزار قریشی

عبد اللہ لیاقت 

پہلے مرحلے میں کیا ہوا؟

19 دسمبر کے انتخابی طبل کیلئےبڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں نےاپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ۔حکومت وقت جہاں جیت کیلئے پراعتماد تھی وہیں اپوزیشن جماعتوں نے بھی الیکشن کی شطرنج پر اپنے مہرے بچھا دئیے۔مرحلہ وار الیکشن میں تحریک انصاف صوبائی حکومت میں بھی حکمران تھی پھر بھی اسے بڑے اپ سیٹ کا سامناکرناپڑا۔وجہ کوئی بھی ہو حکومت وقت اگر الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے تو ضرور عوام انتخابی ردعمل کے ذریعے اسے آئینہ دکھاتی ہے۔

کہیں وزرا ء نے مہنگائی کو شکست کا ذمہ دار قرار دیا اورکہیں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق جمعیت علماء اسلام ف غیر معمولی طور پر صوبہ میں نئی طاقت بن کر ابھری اور پہلے مرحلے میں اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔نتائج پر نظر دوڑائی جائے توجمعیت علماء اسلام ف تین بڑے شہروں پشاور،کوہاٹ اور بنوں سے سٹی میئر ز منتخب کروانے میں کامیاب ہوئی جبکہ ضلع مردان سے عوامی نیشنل پارٹی نے سٹی میئر کی نشست اپنے نام کی۔

تحصیل چیئرمین کے انتخابات میں بھی جے یو آئی ف19 نشستوں پر کامیاب رہی جبکہ تحریک انصاف صوبائی حکومت ہونے کے باوجود صرف14 تحصیل چیئرمین منتخب کراسکی۔تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار رہے جنکی تعداد 11تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی 6،مسلم لیگ ن 3،جماعت اسلامی اور تحریک اصلاحات پاکستان 2،2 جبکہ پیپلزپارٹی ایک تحصیل چیئرمین کامیاب کرواسکی۔ سٹی میئر ڈیرہ اسماعیل خان اور تحصیل بکا خیل کے نتائج ملتوی ہیں۔

بڑے اپ سیٹ کی بات کریں تو سب سے بڑا دھچکا ضلع پشاور میں تحریک انصاف کو ملا جہاں سے 2015ء کے الیکشن میں وہ کامیاب ہوئی تھی۔تحریک انصاف نے جنرل سیکرٹری پشاور ریجن اور کاروباری شخصیت محمد رضوان خان بنگش کو میدان میں اتارا جنہیں جمعیت علماء اسلام کے امیدوار سابق سینیٹر غلام علی کے صاحبزادے زبیر علی خان نے شکست دی ۔اسی طرح کوہاٹ کے سابق ضلع ناظم نسیم آفریدی آزادحیثیت میں اور پی ٹی آئی نے سلمان شنواری کو میدان میں اتارا مگر جے یو آئی ف کے قاری شیر زمان نے پڑا اپ سیٹ کیا اور کامیاب قرار پائے۔

میئر بنوں کیلئے تحر یک انصاف کے اقبال جدون ، پیپلز پارٹی کے شکیل احمد ،اے این پی کے فہیم اللہ اورجے یو آئی ف کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے دامادعرفان درانی میدان میں تھے۔اصل مقابلہ تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے در میان تھا جس بعد جے یو آئی ف نے اپ سیٹ کیااور میدان میں مارلیا۔یوں جمعیت علماء اسلام ف کے تیسرے سٹی میئر نےبھی کامیابی حاصل کرلی۔ دوسری جانب مردان میں سابق ایم پی اے مولا نا امانت حقانی

جے یو آئی کے ٹکٹ سے سٹی میئر مردان کیلئے الیکشن کاحصہ تھے مگرمردان کے سابق ضلع ناظم اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حمایت اللہ مایار فاتح رہے۔تحریک انصاف نے انتخابی نتائج کے تناظر میں پارٹی میں تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحریک انصاف کا ووٹ زیادہ سیٹیں کم کیوں؟

خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ الیکشن 2021 ( فیز 1 ) میں کل ووٹرز کی تعدادایک کروڑ سے زائد تھی۔الیکشن نتائج کے مطابق خیبر پختونخوا کی بڑی اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام ف نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور مقامی سیاست کی حکمران جماعت کے طور پر صوبے بھر میں ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔تحریک انصاف کی دوسری پوزیشن کے بعد انکے پارٹی عہدے دار ایک نئےنقطہ کو لےکر مختلف پلیٹ فارم پر بحث و مباحثہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں سے ووٹ زیادہ حاصل کئے ہیں۔

یہ بات سچ ہے کیونکہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے امیدوار تمام حلقوں میں کھڑے کرے گی تو انکے امیدواروں کے ووٹو ں کا تناسب بھی زیادہ ہو گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تحریک انصاف نے 17اضلاع میں تمام حلقوں میں اپنے امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ دیا جبکہ جمعیت علماء اسلام نے قریباً 43امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ دیا جبکہ بعض نشستوں پر جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی تھی۔ عام انتخابات میں بھی ایک سے زائد بار ایسا ہوا ہے کہ حکومت بنانے والی جماعت زیادہ نشستوں کی وجہ سے آگے رہی جبکہ زیادہ ووٹ لینے والی جماعت مطلوبہ نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن میں رہی۔

جے یو آئی (ف)مقبول جماعت کیسے؟

گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں اگر ان 17اضلاع کے نتائج پر ایک نظر دوڑائیں تو 7 اضلاع میں تحریک انصاف کے ناظمین، ضلع کوہاٹ اور ہنگو میں2 جمعیت علماء اسلام ف کے ناظم، ضلع بنوں اور لکی مروت میں2، پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی 1ضلع بونیرجبکہ ضلع مردان اور صوابی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ناظمین کی مقامی سطح پر حکومت تھی۔ جنرل الیکشن 2018ء کے بعد تحریک انصاف حکمران جماعت جبکہ جے یو آئی ف اپوزیشن کا صوبے میں کردار ادا کرتی رہی۔

حالیہ انتخابات میں جمعیت کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ حکومت کو ہر میدان میں آڑے ہاتھوں لینا تھا۔ اپوزیشن جماعت ملک بھر میں بنیادی طور پر مہنگائی اور وزراء کی اپنے ہی خاندان کو حکومتی سطح پر نوکریوں جیسے ایشوز پر پریس کانفرنسز ، ریلیاں اور جلوس نکالتی رہی ۔یہی وہ بنیادی وجہ بنی جس سے جمعیت کے کئی ایک ناراض کارکن ایک بار پھر پارٹی کی حکومت مخالف پالیسی کو دیکھتے ہوئے مقامی انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں کے ساتھ کھڑے ہو ئے ۔ 

 دوسری وجہ جمعیت علماء اسلام کے کامیاب ہونے والے مئیرز اور تحصیل چیئرمین کی پروفائلز پر نظر دوڑائیں تو انہوں نے زیادہ ترپارٹی ٹکٹ موروثی سیاست کی نظر نہیں کئے بلکہ اپنے پرانے کارکنوں ،مذہبی سیاسی رہنماوں اور بااثر سیاسی خاندانوں کے افراد میں تقسیم کئے جو ہر ضلع کے سیاسی خدوخال کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے پارٹی کی ساخت کو مضبوط کرنے کی جدو جہد کر رہے تھے۔جمعیت علمائے اسلام کی کامیابی میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے الیکشن 2018 کے بعد سے مقامی انتخابات تک اپنے کارکنان اور تنظیم کو فعال رکھا۔ 

لانگ مارچ، جلسے ریلیاں اور دھواں دار بیانات کے ذریعے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کا انہیں مقامی الیکشن میں فائدہ ہوا۔ ماضی کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالی جائے تو جے یو آئی صوبہ کے نسبتاً جنوبی اطراف کے اضلاع مثلاً بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت،کرک ، ٹانک میں مضبوط پوزیشن رکھتی آئی ہے لیکن اس مرتبہ اس سے آگے بڑھ کر پشاور ویلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام نے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مقامی سیاست میں کمزور

انتخابی نتائج کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی چوتھی پوزیشن پر آنے والی جماعت، جس کے 6تحصیل چیئرمین ،1سٹی مئیر، مسلم لیگ ن پانچویں پوزیشن پر 60 تحصیلیوں میں سے صرف 3تحصیل چیئرمین جبکہ پیپلزپارٹی ضلع ڈی آئی خان سے ایک تحصیل چیئرمین کی نشست لینے میں کامیاب رہی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ضلع ناظم حمایت اللہ مایار اس بار بھی سٹی مئیر مردان بننے میں کامیاب رہے۔ 

گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی کے دو ڈسٹرکٹ ناظم مردان اور صوابی سے تھے جبکہ حالیہ انتخاب میں ضلع صوابی اور مردان سے عوامی نیشنل پارٹی کو کل 8 تحصیلوں میں سے صرف 2نشست ملیں۔ مسلم لیگ ن ضلع ہر ی پور سے 2جبکہ صوابی سے ایک نشست لینے میں کامیاب رہی۔مقامی ذرائع کے مطابق پشاور سمیت دیگر اضلاع میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام ف نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی۔

پیپلزپارٹی ماضی میں مقامی سطح پر دو اضلاع بنوں اور لکی مروت میں ووٹ بینک رکھتی تھی اس الیکشن میں دونوں اضلاع میں ایک نشست بھی نہیں لے سکی۔ پاکستان کی انتخابی سیاست میں سیاسی جماعتیں کی مقبولیت کا پیمانہ پورے ملک میں نہیں بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ اپنے مقامی کلچر کے حساب سے صوبے کی جماعتوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر جنرل الیکشن 2018ء کے بعد سیاسی جماعتوں کے ووٹرز نے ملکی سطح پر چلنے والے بیانیے کے مطابق ووٹ کاسٹ کیے جس کے بعد تحریک انصاف عمومی طور پر قومی سطح ،جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختو نخوا کی جماعت،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی صوبہ پنجاب برابر اور پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی حکمران جماعت کے طور پر سامنے آئی۔اس مقامی انتخاب میں ایسا لگ رہا ہے کہ عوام نے اپنے اپنے مقامی امیدواروںکو زیادہ ووٹ کاسٹ کئے جبکہ پارٹی بیانیے کو نظر انداز کیا۔ علاقائی جماعتوں کے پیمانے کو مد نظر رکھیں تو آئند دیگر صوبوں میں ہونے والے بلد یاتی انتخابات کے نتائج کیا ہونگے انکا بخوبی اندازاہ لگایا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کیسے ہاری؟

گزشتہ دو عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ آٹھ سال بعد پہلی مرتبہ تحریک انصاف کو ایک نمایاں شکست کا سامنا کر نا پڑا ہے ۔ ملکی حالات اور مہنگائی کے طوفان کے ساتھ ساتھ پارٹی میں گروپنگ ، ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات ، امیدواروں کے عوامی رابطے میں کمی پارٹی کی شکست کا سبب بنی ۔ کئی اضلاع میں پارٹی کے عہدے دار اور وزراء متفقہ امیدواروں کا انتخاب نہ کر سکے اور رشتہ داروں کو نوازا گیا ۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ تبدیلی کی لہر نہ چل سکی اورمقامی سیاست کے میرٹ پر پورا نہ اترنے والے امیدواروں کو پارٹی کی حمایت اور سپورٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔

موروثی سیاست کی صبح شام مذمت کرنے والی جماعت نے ڈپٹی سپیکر محمود جان کے برادرکو ٹکٹ سے نوازا لیکن پارٹی ٹکٹ ان کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت نہ ہو سکی۔ اسی طرح صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے کزن کو بھی 22ہزار ووٹ سے شکست ہوئی۔ سٹی مئیر پشاور کے لیے تحریک انصاف کی ٹکٹ کے حوالے سے افواہیں اور چہ مگویاں ہوتی رہیں ہیں ۔ پارٹی سے جذباتی وابستگی رکھنے والے کارکنان کے مطابق اس امیدوار کو مسلط کیا گیا اور اسے پیراشوٹر کا خطاب بھی دیا گیا۔

لیکن اس حوالے سے سنگین الزام وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے بھتیجےاور تحریک انصاف کے ایم این اے ارباب شیر علی کے بھائی ارباب محمد علی کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں گورنر اور وزراء پر سٹی مئیر کا ٹکٹ سات کروڑ روپے میں فروخت کرنے کا الزام لگایا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس ویڈیو پیغام سے مالی لین دین کے الزامات کو تقویت ملی کیونکہ یہ الزام ایک جانے پہچانے سیاسی خاندان کے فرد کی جانب سے سامنے آیا۔دوسری جانب تحریک انصاف کےشکست کھانے والے امیدوار رضوان بنگش نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ۔ لیکن ان کی تردید تسلی بخش ثابت نہ ہوئی اور عوامی حلقوں میں ابھی تک ان الزامات پر گفتگو جاری ہے۔

پشاور: صوبائی دارالحکومت پشاور میں قومی اسمبلی کی5 نشستوں پر تحریک انصاف کے ایم این اے براجمان ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی پشاور میں 14نشستوں میں سے11نشستیں پی ٹی آئی جبکہ 3نشستیں عوامی نیشنل پارٹی کی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ضلع پشاور میں مقامی الیکشن کی سب سے زیادہ نشستیں جمعیت علماء اسلا م (ف) کو حاصل ہوئیں۔ سٹی مئیر زبیر علی خان کے ساتھ ساتھ 4تحصیل چیئرمین کی نشستیں بھی جمعیت علماء اسلا م کوملیں۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ضلع پشاور میں جے یو آئی ف کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں ہے۔

اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کو 1تحصیل چیئرمین کی سیٹ ملی جبکہ اے این پی کے 3ایم پی اے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر براجمان ہیں۔ ضلع میں قومی اور صوبائی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت ہونے کے باوجود حالیہ مقامی انتخابات میں ضلع پشاورکی سٹی مئیر اور 6تحصیلوں ،کل 7نشستوں میں سےپی ٹی آئی کو صرف 1تحصیل چیئرمین کی نشست ملی۔

علاقائی ذرائع کے مطابق کاروباری شخصیت ،سابق ضلع ناظم پشاور اور مولانا فضل الرحمن کے سمدھی حاجی غلام علی نے اپنے بیٹے زبیر علی کی انتخابی مہم میں مالیات کے معاملے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ساتھ مقامی کونسل کی سطح تک بااختیار اور مقامی اثر رکھنے والے سیاسی افراد سے رابطے کئے اور ان سےصرف سٹی مئیر پر حمایت حاصل کی جبکہ نیبر ہڈ کونسل پر ان کے امیدواروں کی حمایت کی۔اس طرح مقامی دھڑے بندیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

مردان میں 1سٹی مئیر جبکہ 4تحصیل چیئرمین کی نشستوں پر انتخابات ہوئے۔قومی اسمبلی میں ضلع مردان کی 3نشستیں ہیں جن میں سے 2پر تحریک انصاف جبکہ 1پر عوامی نیشنل پارٹی کے ایم این اے ضلع کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی کل 8 نشستوں میں سے 7پی ٹی آئی جبکہ 1عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہے۔

اس ضلع میں بھی مقامی انتخابات کی بات کریں تو سٹی مئیر کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے حمایت اللہ مایارکامیاب ہوئے۔4تحصیلوں میں سے 3پر جمعیت علماء اسلام ف کے چیئرمین جبکہ 1تحصیل پرعوامی نیشنل پارٹی کےبختاور خان کامیاب ہوئے۔اعدادوشمار کے مطابق ضلع مردان میں تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اکثریت میں ہیں جبکہ مقامی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام ف کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔

چارسدہ اس ضلع میں قومی اسمبلی کی 2نشستیں پی ٹی آئی اورصوبائی اسمبلی کی 5نشستو ں میں 4پر تحریک انصاف جبکہ 1نشست عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہے۔ اس ضلع میں بھی تحریک انصاف کی حکمرانی ہے مگر مقامی انتخابات میں یہاں سے بھی تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔مقامی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے مقامی نمائندوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور الیکشن میں عدم تعاون کا رویہ رکھا ۔

بلدیاتی نتائج کے مطابق اس ضلع سے بھی تحریک انصاف کا صفایا ہوا، 3 تحصیلوں میں سے 2 جمعیت علماء اسلام ف کے چیئرمین اور 1پر آزادامیدوار کامیاب ہوا۔ چارسدہ سے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی الیکشن میں حصہ لیتےرہے ہیں اور اسے اے این پی کے تنظیمی طور پر مضبوط اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان مقامی انتخابات میں اے این پی بھی بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی اور جمعیت علماء اسلام نے تحریک انصاف اور اے این پی دونوں سے مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔

صوابی ضلع کی قومی اسمبلی کی 2 اور صوبائی اسمبلی کی 5 نشستوں پر تحریک انصاف کی حکمرانی ہے ۔اس کے باوجود یہاں پر بھی دوسرے ضلعوں کی طرح نتائج یکسر مختلف ہیں۔ خصوصا صوابی کی تحصیل رزڑ میں صوبائی وزیر شہرام ترکئی کےکزن بلند اقبال خان کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دیا گیا لیکن بدترین شکست اس طرح ہوئی کہ وہ مخالف امیدوار سے 22 ہزار ووٹوں سےہار گئے۔ اسی طرح حیران کن طور پر کوہاٹ میں شکست کھا کر دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کا تعلق صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہےاور ہارنے والے دونوں امیدواروں کے ووٹ جمع کیے جائیں تو جیتنے والے امیدوار سے زیادہ بنتے ہیں لیکن پارٹی کے اندرونی اختلافات کا فائدہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ہوا ۔

لکی مروت میں رکن صوبائی اسمبلی ہشام انعام اللہ اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ڈاکٹر ہشام انعام اللہ اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر ہشام نے مقامی الیکشن سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط ارسال کیا جس میں لکی مروت میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اعتراض کیا اور الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف ہی کے وزیر علی امین گنڈا پور اپنے من پسند امیدواروں کو نواز رہے ہیں جو نامناسب عمل ہے۔ 

 پارٹی عہدے داروں کو ٹکٹ نہیں دئیے گئے جس کی وجہ سے الیکشن میں اس معاملے پر پارٹی میں اختلافات سامنے آئے اس کانتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم پی اے ڈاکٹر ہشام نے یہ دعوی بھی کیا کہ جیتے ہوئے امیدوار تحریک انصاف میں ہی شامل ہوں گے لیکن ہمیں پارٹی میں بہتر مقام ملنا چاہیے۔ ڈاکٹر ہشام انعام اس سے پہلے وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں اور وہ الزام لگاتے ہیں کہ مجھے علی امین گنڈاپور اورگورنر شاہ فرمان نے سازش کے تحت وزارت سے نکلوایا۔

سیاسی رشتہ دار میدان میں 

ملک کے باقی صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی بڑے سیاسی خانوادے اپنے رشتہ داروں کو میدان میں اتارکر ان کے سیاسی سفر کا آغاز کروایا۔ان بلدیاتی انتخابات میں چانچ سابق وزرائے اعلیٰ کے عزیز و اقارب سیاسی دنگل کا حصہ لیا۔ اس بار سیاسی خاندانوں نے کسی ایک سیاسی جماعت سے تعلق وابستہ نہیں کیااور مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بیٹے اسحاق خٹک تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے تحصیل چیئرمین کی نشست کیلئے میدان میں تھے اورمدمقابل پرویز خٹک کے بھتیجے احد خٹک پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن کا حصہ تھے۔بھتیجے احد خٹک کے مقابلے میں بیٹا اسحاق خٹک کامیاب ہوا۔ 

اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ صابر شاہ کے بھتیجے قاسم شاہ ن لیگ کے ٹکٹ سے تحصیل غازی سےامیدوار تھے جنہوں نے تحریک انصاف کے نوید اقبال کو شکست دی ۔سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے داماد سابق ضلع ناظم عرفان درانی جے یو آئی ف کی ٹکٹ پر سٹی میئر بنوں کا الیکشن لڑ رہے تھے اوران کا مقابلہ تحریک انصاف کے اقبال جدون کیساتھ تھا۔ قریباً 12 ہزار ووٹوں سے عرفان درانی نے تحریک انصاف کے اقبال جدون کو شکست دی۔

سابق وزیر اعلیٰ عنایت اللہ گنڈا پور کے پوتے آریز گنڈا پور بلے کے نشان پر تحصیل چیئرمین کلاچی کیلئے میدان میں اترے جبکہ ان کے مدمقابل فریدون پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے۔تحریک انصاف کے آریز خان کامیاب قرار پائے ۔سابق نگران وزیر اعلی سکندر زمان کے دو پوتے راجہ ہارون اور راجہ شہاب تحصیل چیئرمین خان پور کیلئے انتخابی دنگل لڑے۔

راجہ ہارون ن لیگ اور راجہ شہاب تحریک انصاف کے ٹکٹ پرامیدوار تھے۔ کانٹے دار مقابلے کے بعد راجہ ہارون سکندر نے تین ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سابق سینیٹر غلام علی کے بیٹے زبیر علی کوٹکٹ جاری کیاجنہوں نے تحریک انصاف کے محمد رضوان خان بنگش کو شکست دے دوچار کیا۔