• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی عہدےپر تعیناتی اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، صنفی امتیاز کسی بھی صورت روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔جوڈیشل کمیشن کا کثرت رائے سے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں بطور جسٹس مقرر کرنے کی منظوری دینا ایک احسن عمل ہی قرار پائے گا کہ اس سے اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی ہوگی ۔ جسٹس عائشہ ملک ملکی تاریخ میں عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جسٹس ہوں گی۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پر غور کیا گیا۔ایک انگریزی معاصر کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عائشہ ملک کے نام کی سفارش کر دی اور معاملہ حتمی منظوری کیلئے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا ہے۔جوڈیشل کمیشن کے 5 اراکین نےان کے حق میں ووٹ دیا اور 4اراکین نے مخالفت کی۔یاد رہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی میں سینیارٹی کے حوالے سے ایک تنازع نے بھی جنم لیا اور وکلا نے احتجاجی ہڑتال تک کی دھمکی تک دے ڈالی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں اور سپریم کورٹ کی تاریخ میں چالیس کے قریب ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں ججوں کو سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں جج تعینات نہیں کیا گیاتو پھر معاملات کو الجھانے کی کیا منطق ہے ،سوال یہ بھی ہے کہ جسٹس فخر النسا کھوکھر کو سینئر موسٹ ہونے کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات نہیں کیا گیا تھا؟بعض قانونی ماہرین کے مطابق ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں تعیناتی پروموشن نہیں بلکہ نئی تعیناتی تصور کی جاتی ہے ۔ جسٹس عائشہ ملک کی مذکورہ تعیناتی ایک مثبت روایت ہے کہ معمول سے ہٹ کر بہت سی خواتین نے وکالت کے شعبے میں قدم رکھا ہے ایسی مثال ان کی ہمت افزائی کا باعث بنے گی۔

تازہ ترین