مجھے اِس لحاظ سے آپ میراثی کہہ سکتے ہیں کہ شوقِ سیاحت مجھے میراث میں ملا ہے۔ والد صاحب دنیا جہان کی سیاحت کرنے کے لیے یونانی بحری جہازوں میں 6برس تک ملازم رہے، والدہ کو ریل گاڑی کے ڈبے میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھنے کا شوق تھا۔ مال گاڑی کے آخر میں لگنے والے گارڈ کے چھوٹے سے ڈبے کو وہ ہمیشہ حسرت سے دیکھا کرتی تھیں۔ اِس ڈبے میں ان کی سفر کرنے کی خواہش کا مجھے تب پتا چلا تھا جب ایک بار انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تم ریلوے میں گارڈ نہیں لگ سکتے؟ دو سال پہلے میری والدہ اپنی اس معصوم خواہش کو دل میں لئے اگلے جہان سدھار گئیں۔ یہ ریل گاڑیاں آج بھی لوہے کی پٹریوں پر دوڑتی پھرتی ہیں لیکن گارڈ کے ڈبے کو حسرت سے دیکھنے والی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مند گئی ہیں۔میں اپنے چھوٹے سے سفر کو بھی بڑی سیاحت میں بدل لیتا ہوں۔ منظروں کو پیشانی پر جڑی ہوئی دو آنکھوں کے بجائے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔ زندگی کے نئے پہلو دیکھ کر بچوں کی طرح حیران ہوتا ہوں۔ فطرت کے رنگوں میں کھو جاتا ہوں۔ سکوتِ لالہ و گل سے ہم کلام ہوتا ہوں۔
پچھلا پورا ہفتہ میں نے اپنی یادوں کے شہر ملتان میں گزارا۔ ہزاروں سال پرانا یہ شہر آج کے ماڈرن زمانے میں بھی پرانی روایات، اقدار اور ثقافت کا مظہر ہے۔ دوسرے قدیم شہروں کی طرح ملتان میں بھی ایک بلند و بالا مضبوط قلعہ موجود ہے۔ قلعے کے پہلو میں پرانا شہر واقع ہے اور شہر کے گرد ایک فصیل ہے۔ ملتان کے لوگ اس فصیل کو النگ کہتے ہیں۔ ملتان کی فصیل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے اوپر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ اس کے اوپر بہت سے کاروباری مراکز ہیں جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ دیوار کے گرد سڑک ہے جسے سرکلر روڈ کہا جاتا ہے۔ فصیل سے سرکلر روڈ پر جانے کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ لاہور کی طرح ملتان کے اندرون علاقوں میں بھی کاروباری مراکز قائم ہیں۔ ان بازاروں میں ہر وقت کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ میں جب بھی ملتان جاتا ہوں تو اس کی گلیوں، بازاروں، سڑکوں اور کوچوں میں گھومتا ہوں۔ سرکلر روڈ پر اگرچہ بہت رش ہوتا ہے لیکن اس کے باوجودمیں یہاں گاڑی پر گھومتا ہوں۔ جن سڑکوں پر آپ ساری عمر پیدل پھرتے رہے ہوں یا بائیسکل پر گھومتے رہے ہوں، ان پر گاڑی چلانے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔لاہور اب ایک مہنگا شہر بن چکا ہے لیکن ملتان آج بھی سستا ہے۔ آپ بیس روپے میں نان چنے کھا کر شکم سیر ہو سکتے ہیں۔ مکانوں اور رکشوں کے کرائے بھی کم ہیں۔ چھوٹا سا شہر ہے، آپ بائیسکل اور موٹر بائیک پر پورا شہر آدھ پونے گھنٹے میں گھوم سکتے ہیں۔ یہاں ابھی ہائوسنگ اسکیموں کا جال نہیں بچھا۔ کھیت ابھی لہلہا رہے ہیں، لوگ سادہ اور غریب ہیں لیکن لالچی نہیں۔
اس دفعہ ملتان گیا تو نوجوان سیاحوں کی دو تنظیموں کراس روٹ کلب اور پرائیڈر بائیکرز کلب نے مکالمے کے لیے مجھے طلب کر لیا۔ نشتر اسپتال ملتان کے ڈی ایم ایس سید مزمل حسین، عدنان بھٹی اور میرے برادر خورد عامر بشیر یہ کلب چلاتے ہیں۔ تین درجن کے قریب لوگ اس کے ممبر ہیں، یہ سب موٹر سائیکلوں پر ملک بھر میں گھومتے پھرتے ہیں اور حیرتوں کے نئے جہان دریافت کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ مسافر اور سیاح میں فرق ہوتا ہے۔ مسافر وہ آدمی ہوتا ہے جو ہمیشہ ایک متعین منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے جبکہ سیاح کی کوئی متعین منزل نہیں ہوتی۔ مسافر ہمیشہ اپنی دو آنکھوں سے زندگی کو دیکھتا ہے جبکہ سیاح سب کچھ دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ گویا مسافر بصارت سے کام لیتا ہے اور سیاح بصیرت سے۔ سیاح چونکہ فطرت کے قریب تر ہوتا ہے اس لیے وہ سادہ اور مخلص ہوتا ہے۔ پرائیڈر بائیکرز کلب کے سارے ممبر ایسے ہی سادہ اور مخلص تھے، جیسا کہ ہر سیاح کو ہونا چاہیے۔ ان کی سیروسیاحت کی مثبت سرگرمی، ملک بھر کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔ فطرت کے قریب رہنے والے لوگ، انسانوں کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنتے۔ اس لیے اس سیاحتی سرگرمی کو ہمیں ملک بھر میں عام کرنا چاہیے۔
سرکاری ٹی وی کے ملتان مرکز کے کرنٹ افیئرز کے سینئر پروڈیوسر برادرم علی رضا نے اپنے پروگرام ’’وساخ‘‘ میں شرکت کی پُرخلوص دعوت دی تو میں انکار نہ کر سکا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پرانے دوست اور ملتان کی ادبی شناخت برادرم شاکر حسین شاکر سے ملاقات ہو گئی۔ اِس پروگرام میں ملتان کے سینئر صحافی مظہر جاوید صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی۔ جب اطہر ناسک، اختر شمار، رضی الدین رضی، شاکر حسین شاکر اور میری ادبی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا، مظہر جاوید تب بھی روزنامہ ’’آفتاب‘‘ ہی سے وابستہ تھے اور آج ساڑھے تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وہ اُسی روزنامے سے وابستہ ہیں۔ کرنٹ افیئرز کے ہیڈ ثاقب مختار صاحب لاہور میں میرے دوست افتخار مجاز مرحوم کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ آج کل ملتان کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک بار منو بھائی نے ملتان کی ایک تقریب میں کہا تھا ’’جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا اسلام آباد بھی مضبوط ہے‘‘ گویا ثاقب مختار بھی اِن دنوں اپنا ملتان مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ میرا ملتان چونکہ ابھی مضبوط نہیں، اس لیے میں ابھی لاہور ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہوں۔ ایک نجی بینک کے زونل چیف اور میرے دیرینہ شاعر دوست عزیز اللہ عابد نے کافی پینے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ملتان میں یہ ان کا آخری دن ہے کل وہ حیدر آباد کے بینک کا چارج سنبھال لیں گے۔ میں نے اُن سے حیدرآباد آکر کافی پینے کا وعدہ کر لیا۔ اس دن میرے دوست علی رضا زرعی ترقیاتی بینک کے زونل چیف قربان علی صاحب سے ملاقات کا وقت لے چکے تھے۔ سو عزیز اللہ عابد کی کافی کی تلافی، ان کے دفتر کی گرما گرم چائے نے کر دی۔ لاہور کی محبت چونکہ اب میرے خون میں شامل ہے اس لیے ملتان سے اپنی ملاقات ادھوری چھوڑ کر لاہور آچکا ہوں اہلِ لاہور کی محبت دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ شاید میراملتان بھی مضبوط ہے۔