• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سلامتی کو یقینی بنانا کسی بھی حکومت کا اہم ترین فریضہ ہے لیکن کسی ملک کا محض فوجی اعتبار سے مستحکم ہونا اس مقصد کے لیے ہرگز کافی نہیں۔ ایک ملک اپنی قومی سلامتی کا ہدف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب اس میں رہنے بسنے والے لوگ مطمئن زندگی بسر کررہے ہوں، ہر علاقے کے باشندے ہر طرح کی حق تلفی اور ظلم و استحصال سے محفوظ ہوں، ریاست ان کے تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضامن اور محافظ ہو،سب کو فوری اور ارزاں انصاف میسر ہو، قومی سطح پر مکمل اتحاد و اتفاق ہو، دفاع کے ساتھ ملک معیشت میں بھی خود کفیل ہو۔ پاکستان میں ان حوالوں سے ایک متفقہ قومی حکمت عملی وضع کیے جانے کی ضرورت مدت سے محسوس کی جارہی تھی اور یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے اس سمت میں عملی پیش رفت کرتے ہوئے ایک پانچ سالہ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی ہے جس کا غیر خفیہ حصہ گزشتہ روز قوم کے سامنے لے آیا گیا ہے۔ خفیہ حصہ ملک کی داخلی و خارجی سیکورٹی اور اہم ریاستی معاملات سے متعلق ہے جبکہ عوام کے سامنے لائی جانے والی دستاویز میں قومی سلامتی کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس قرض مانگنے جانے کے نتیجے میں کسی نہ کسی پہلو سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا ’ ’ہم مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور قرض لینے کے لیے اس کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے جو لازمی نہیں کہ سیکورٹی فورسز سے متعلق ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ آپ کو اپنے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے جبکہ سب سے بڑی سیکیورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔‘‘ آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیر اعظم کایہ تجزیہ واضح طور پر مبنی بر حقیقت ہے۔ مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط عوام کے لیے لازماً مشکلات کا سبب بنتی ہیں اور یوں حکومت اور عوام میں فاصلے بڑھتے ہیں لیکن نئی قومی سلامتی پالیسی جس قدر ہمہ پہلو اور وسیع البنیاد ہے، اس کی بنا پر جا سکتا ہے کہ اگر اسے صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنایا جا سکا تو قومی یگانگت کی منزل سرکی جا سکے گی۔ پالیسی کا محور عام شہری کا تحفظ اور معاشی سیکورٹی ہے۔ اس کے بنیادی نکات میں قومی مفاہمت کے قیام، ملک کے معاشی مستقبل کے تحفظ، دفاع اور سرحدی سالمیت، داخلی سیکورٹی اور بدلتی دنیا میں ملک کی خارجہ پالیسی اور شہریوں کے تحفظ ، غریب اور امیر کے درمیان بڑھتے فرق سے معاشی عدم استحکام کے باعث درپیش خطرات، موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی قلت جیسے مسائل کے ممکنہ حل کے متعلق سفارشات شامل ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت کی مرتب کردہ قومی ہم آہنگی کی ضرورت واضح کرنے والی اس دستاویز کے برخلاف گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں جس قدر سیاسی منافرت بڑھی ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ احتساب کے عمل کو شفاف اور غیرجانبدارانہ رکھنے میں مکمل ناکامی اور اسے عملاً صرف سیاسی مخالفین تک محدود رکھنے کے باعث نہ صرف یہ عمل یکسر غیر معتبر ہو گیا بلکہ اس طرح ان کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو حکمراں جماعت کے خلاف آخری حد تک برانگیختہ کردیا گیا جو حکومت کی مخالف جماعتوں کے حامی ہیں اور جن کی مجموعی تعداد حکومت کے حامیوں سے زیادہ ہے۔ اسی کے نتیجے میں اس پوری مدت میں پارلیمان تقریباً معطل رہی اورقانون سازی صدارتی فرامین کے ذریعے ہوتی رہی۔ لہٰذا حکومت اگر پالیسی کے اہداف واقعتا حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی روش بدلنی ہوگی۔ اپوزیشن کے ساتھ کم ازکم فنکشنل روابط قائم کرنے اور احتساب کے عمل کو شفاف اور بلاامتیاز بنانا ہوگا، اس کے بغیر قومی سلامتی پالیسی کے مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں۔

تازہ ترین