• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلا میں ہونے والی نت نئی دریافتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سائنس داں اب تک متعدد ٹیلی اسکوپ خلا می بھیج چکے ہیں ۔اس ضمن میں چند ہفتوں قبل جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو آریان فائیو راکٹ کے ذریعے فرینچ گیانا سے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں چھوڑا گیا،جس کا سب سے بڑا آئینہ اب مکمل طور پر کھل چکا ہے اور اب یہ ٹیلی اسکوپ فوکس کرنے کے لیے تیار ہے ۔جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مرکزی حصے ’’گولڈن ریفلیکٹر‘‘ کو سیدھا کرلیا گیا ہے جو اندر کی طر ف خم دار ہے اور اس کا قطر 6.5 میٹر ہے۔

مشن کے آغاز پر اس آئینے کو کسی تہہ ہوجانے والی میز کی طرح موڑا گیا تھا ۔ماہرین کے مطابق اب جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کائنات کے ایسے حصوں پر تحقیق کی جاسکے گی جن پر ابھی تک کرنا ممکن نہیں تھا ۔سائنس داں چاہتے ہیں کہ اب اس کی اور رصد گاہ (آبزرویٹری ) کی مدد سے بگ بینگ کےقریب 20 کروڑ سال بعد پیش آنے والے واقعات کو سمجھ سکیں ۔ماہرین کائنات کو روشن کرنے والے پہلے ستاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس ٹیلی اسکوپ کی ’’بڑی آنکھ ‘‘ کی تربیت کچھ اس طر ح کی گئی ہے کہ یہ دور واقع سیاروں کے ماحول پر نظررکھے سکے ۔اوریہ پتالگاسکے کہ وہاں زندگی کے آثار ممکن ہےیا نہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا میں جیمز ویب ٹیلی ا سکوپ کا آئینہ نصب کرنے والی ٹیم کے سربراہ لی فائنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ دوربین لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اتنی طاقتور ہے کہ ہم اس سے جہاں کہیں بھی دیکھیں گے اس سے بڑے پیمانے پر نئی معلومات فراہم ہوں گی۔جیمز ویب ٹیلی ا سکوپ کو امریکا، یورپی ممالک اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ اسے ڈیزائن اور تیار کرنے میں قریباً 30 سال لگے۔ یہ ہبل ٹیلی اسکوپ کی جانشین ہے۔

ہبل ٹیلی اسکوپ آپٹیکل ہے، جب کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ انفراریڈ روشنی کے لیے ہے۔ ہبل اپنی آپریشنل زندگی مکمل کرنے کے قریب ہے۔جیمز ویب ایک جدید دوربین ہے ،جس میں قدرے نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اسے نصب کرنے کے مختلف مراحل تھے، جس میں پتنگ نما سن شیلڈ (جس کا سائز ایک ٹینس کورٹ جتنا ہے) کی تعیناتی بھی ضروری تھی جو توقعات کے مطابق ممکن ہوا۔خلائی تحقیق کی تاریخ میں اس کا شمار بڑی کامیابیوں میں ہوگا۔

اس کو آپریٹ کرنے والی کنٹرول ٹیم ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹیمور میں اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ میں موجود ہیں۔ اس تعیناتی کو مرکزی آئینے کے دو پروں کو 90 ڈگری پر ہلا کر مکمل کیا گیا۔ٹیلی اسکوپ کی جانب سے آسمان سے بھیجے گئے پیغام نے تصدیق کی ہےکہ دوربین کے پینل اپنی جگہ پر لاک ہوچکے ہیں۔ بعد ازاںمشن کے آپریشنز مینیجر کارل ا سٹارنے بتایا کہ ہم نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی رصدہ گاہ کو مکمل طور پر تعینات کردیا ہے ۔

ناسا میں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے پروگرام مینیجر بل اوشز کے مطابق شروع کے دوہفتے بہت اچھے رہے۔ تھامس زبرچن کا کہنا ہے کہ اس طر ح کی ٹیلی اسکوپ دنیا نے آج تک نہیں دیکھی ہوگی اور یہ ان چیزوں کے بارے میں پتا لگائے گی ،جس کے بارے میں ہمیں آج تک معلوم نہیں ہے ۔اتنی بڑی دوربین کو آسمان میں کھولنا اب تک خلا میں کی گئی سب سے مشکل تعیناتیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ڈیزائن میں دہائیوں تک کام جاری رہا اور اس کی جدید انجینئرنگ نے متاثر کُن نتائج دیے،مگر اس رصدگاہ کی اصل طاقت کا اندازہ آئندہ موسم گرما تک نہیں ہوگا جب اس سے ابتدائی تصاویر کھینچ کر زمین بھیجی جائیں گی۔

اس کے مناظر نہ صرف حیرت انگیز ہوں گے بلکہ اس کے ذریعے ہم اپنے کئی بڑے سوالوں کے جواب بھی حاصل کرسکیں گے ۔مثلاً یہ کائنا ت کیسے وجود میں آئی اور زمین کے علاوہ کہیں اور بھی زندگی موجود ہے ،تاہم ابھی جیمز ویب کی جانب سے کائنات کی تصاویر کھینچنے سے قبل تیاری کے اور بھی مراحل باقی ہیں۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسے بہت زیادہ ٹھنڈا ہونے دیا جائے۔اسے انفراریڈ (یعنی زیر سرخ شعاعیں جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتیں) میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ 

لہروں کی طولِ موج (ویولینتھ) زیادہ ہونے پر ہمیں بڑے ستارے چمکتے دکھائی دیں گے۔جب تک اس دوربین کو کم درجۂ حرارت پر نہیں لایا جاتا اس سے خارج ہونے والی توانائی سب سے باریک سگنلز کو ماند کرتی رہے گی۔دوربین کی بڑی پتنگ نما سن شیلڈ سے پیدا ہونے والا سایہ ٹیلی اسکوپ کے آلات کا درجۂ حرارت منفی 230 ڈگری سینٹی گریڈ تک لے جائے گا۔ اسی طرح چاروں سائنسی آلات ضروری حساسیت کے ساتھ کام کر سکیں گے۔

ماہرین جلد ان کے فعال ہونے کے ساتھ ان کی کارکردگی کو جانچنا شروع کریں گے۔ انہیں مرکزی آئینے میں چھ کونوں والے 18 حصوں کو اس طرح ترتیب دینا ہے کہ عکس دکھانے والی یکجا سطح بن سکے۔ ہر حصے میں موٹر نصب ہے جسے اوپر نیچے، دائیں بائیں، گھمایا یاجھکایا جا سکتا ہے، تاکہ انہیں بہترین جگہ پر لایا جا سکے۔ان مراحل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جولائی کے اواخر تک جیمز ویب ٹیلی ا سکوپ سے تصاویر مصول ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید