’’جیسا کہ ہم ہر سال مختلف شخصیات کو کچھ کارہائے نمایاں انجام دینے، اپنی زندگیاں، دوسروں کی زندگیوں کی بہتری و سنوار کے لیے و قف کرنے پہ کچھ تعریفی و توصیفی اسناد سے نوازتے ہیں، تو اس سال یہ تقریب ہمارے شہر کے تین نوجوانوں کے نام ہے۔ تینوں کی شخصیات اپنے ناموں کی طرح اپنی اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔
بدقسمتی سے اِن میں سے ایک، نایاب حفیظ آج ہم میں موجود نہیں۔ لیکن چوں کہ وہ ایک لکھاری تھیں، سو اپنے لفظوں کی صُورت وہ ہمیشہ ہمارے درمیان موجود رہیں گی، اِس تقریب میں بھی اور آنے والی تقریبات میں بھی۔ تو، سب سے پہلے میں نایاب ہی کی سہیلی، عنزہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اُن کی کتاب سے کوئی افسانہ پڑھ کر حاضرین کو ان کی یہاں موجودگی کا احساس دلائیں۔ پلیز، عنزہ صاحبہ! اسٹیج پہ آ کر ہم سب کو نایاب کے اچھوتےخیالات، زندہ الفاظ سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔‘‘ شہر کے پنج ستارہ ہوٹل کے، مہمانوں سے کھچاکھچ بَھرے ہال میں، میزبان نے عنزہ کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔
عنزہ بڑی دھیرج سے، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی، اسٹیج کی طرف بڑھی، اور نم آنکھوں سے حاضرین کی طرف ایک نظرڈال کر کچھ اس طرح گویا ہوئی۔ ’’محترم حاضرین و سامعین! مَیں نایاب کی کتاب کا آخری افسانہ آپ کے سامنے پیش کروں گی، جو انھوں نے بسترِ علالت پر لکھا، اُمید ہے آپ کو ضرور پسند آئے گا۔ ’’تتلیوں کے چمن سے، وحشتوں کے جنگل تک…‘‘ ’’انسان عُمر کے کسی بھی حصّے میں داخل ہو جائے، اُس میں ایک بچّہ ضرور زندہ رہتا ہے، جو اُس کی معصومیت کو بھی زندہ رکھتا ہے۔ اور عُمر کے کسی بھی حصّے میں یہ بچّہ اُس کی پوری شخصیت پہ حاوی ہو سکتا ہے۔
وہ بھی عُمر کے ایک ایسےحصّے سے گزر رہا تھا، جس میں، اُس میں موجود بچّہ اس کے معصوم شوق زندہ رکھے ہوئے تھا۔ بچپن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کو آگاہی کی تلخیوں سے محفوظ، ماضی کے بوجھ سے آزاد رکھتا ہے۔ ’’آج‘‘ کی فکر سے میلوں دُور ’’مستقبل‘‘ اُس کے لیے اندیشہ نہیں ، ایک حسین خواب کی مانند ہوتا ہے، جو زندگی کی رنگینیوں میں اضافہ کرتاہے۔ تب ہی کبھی کبھی آگاہی کے دروازے کُھلنے کے بعد بھی انسان حقیقت سے فرار کی خاطر، خود میں موجود بچّے کو اپنے اوپر طاری کرلیتا ہے۔
بچپن میں اُسے اڑتی تتلیاں بہت بھاتی تھیں۔ رنگ برنگی، حسین تتلیاں… بہار کی رعنائیوں میں اضافہ کرتی تتلیاں۔ اور تتلیوں میں بھی، اُسے سفید تتلیاں بہت پسند تھیں کہ سفید رنگ اُس کی کمزوری تھا۔ سفید رنگ بےرنگ ہو کے بھی رنگین رہتا ہے۔ سفید پھولوں پہ بیٹھی سفید تتلیاں… یہ منظر اُسے مدہوش کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ وہ تصوّر ہی تصوّر میں، اُن سفید پھولوں کے گرد منڈلاتی سفید لباس میں ملبوس پریوں کو دیکھتا رہتا۔ یوں بھی، بچپن کی تصوّراتی دنیا باقی عُمر کی تصوّراتی دنیا سے الگ اور زیادہ حسین ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں حقیقت کی آمیزش نہیں ہوتی۔ یہ تصوّراتی دنیا صرف فرار یا پناہ نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو ہوتی ہے۔
اگرچہ وہ بچپن کی عُمر سے گزر چُکا تھا، مگر اُس کا ذہن آج بھی حقیقی دنیا کو قبول کرنےپر آمادہ نہیں تھا۔ وہ آج بھی پرندوں، تتلیوں، رنگوں اور پھولوں کی دنیا میں رہتا تھا۔ اُس نے آج تک خود میں موجود معصوم بچّے کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ آج بھی وہ تتلیوں کے پیچھے بھاگتا رہتا۔ آج بھی وہ چاند کے گرد پریوں کی پناہ گاہیں تلاش کرتا۔ تصوّرات میں کھو کر حقیقت سے بےگانہ ہو جاتا۔ آزاد پرندے کی مانند ہر طرف اُڑتا پھرتا تھا۔
رات بھر بارش کے بعد سورج اب گہرے نیلے شفّاف آسمان پر جگمگا رہا تھا۔ بہار اپنے جوبن پر تھی۔ رات بھر بارش اور بہار نے مل کر باغ کی خُوب صُورتی، حسن و دل کشی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ ہر شے نکھری نکھری، بے حد حسین و جمیل دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے جب باغ میں قدم رکھا، تو خود کو بےشمار رنگ برنگی تتلیوں میں گھرا ہوا پایا۔ وہیں ایک پھول پہ بیٹھی ایک سفید رنگ تتلی پہ اُس کی نظر پڑی۔ باوجود کئی کوششوں کے، وہ خود کو روک نہ پایا اور مُسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ پھیلا کر اُس تتلی کی طرف لپکا۔ تتلی اُس پھول کو چھوڑ کر آگے کی طرف دوڑی۔ اب پیچھے پیچھے وہ، اور آگے آگے وہ سفید رنگ تتلی تھی۔
نہ تتلی کہیں رُکی، نہ اُسے تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ تتلی کو چُھونے، پکڑلینے کی کوشش اور آس میں وہ اپنی راہ سے کہیں بہت آگے نکل چُکا تھا۔ اِس بات کا احساس ہوتے ہی اس نے ارد گرد نظر دوڑائی، تو ایک ویران کانٹوں بَھرا جنگل اُس کامنتظر تھا،وہ حسین باغ تو کہیں بہت پیچھے رہ گیاتھا۔ وہ بدحواس ہوکرچاروں طرف دیکھنے لگا، مگر کہیں، کوئی باہر کا رستہ نہیں تھا۔ خشک جھاڑیوں اور کانٹوں نے اُس کا لباس جگہ جگہ سےتارتارکرڈالا تھا۔ پاؤں میں موجودجوتے کھردری زمین سےرگڑیں کھارہےتھے۔راہ میں موجود کانٹوں، پتھروں نے اُس کے پاؤں شدید زخمی کر دیئے تھے۔ جسم سے جگہ جگہ سے خون رسنے لگا تھا۔ سارا دن اِس جنگل میں بھٹکنے کے بعد اُسے شدید پیاس محسوس ہو رہی تھی، لیکن… اس بےآب و گیاہ جنگل میں اسے پانی کہاں ملتا۔
رات کی بڑھتی تاریکیاں جنگل کی وحشت میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ اوپر سے گہرے بادل اور تند و تیز ہوائیں، زمین پہ رینگتے حشرات اور جنگلی جانوروں کا خوف۔ موت اُس کے سر پہ مسلسل منڈلا رہی تھی۔ یہ منظر بھی کسی دوزخ میں قیام کے جیسے تھا۔ دیکھتے دیکھتے شدید بارش نے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پہلے ہوائیں اور اب شدید بارش۔ وہ ایک درخت کی اوٹ میں چُھپ کر بیٹھ گیا۔ ارد گرد منڈلاتے جنگلی جانوروں کی خوف ناک آوازوں نے سراسیمگی کو اُس کے کہیں بہت اندر تک پیوست کر دیا تھا۔
جسم شدید درد کی کیفیت میں بےآواز کراہ رہا تھا۔ درد کا وار ہمیشہ جسم ہی پہ ہوتا ہے اور غم کا نشانہ ہمیشہ رُوح ہی بنتی ہے، لیکن جسم اور روح کا رشتہ ایسا ہے کہ جب ایک تکلیف میں ہو، تو دوسرا بھی سُکون میں نہیں رہ پاتا۔ تکلیف جسم کی ہو، تو روح بھی بلبلا اٹھتی ہے اور تکلیف روح کی ہو، تو جسم کو کسی پَل چین نہیں آتا۔ آج وہ پہلی مرتبہ جسم و روح کی اذیت ایک ساتھ سہہ رہا تھا۔ حسین دنیا سے باہر ایک تلخ دنیا میں۔
’’یہ مَیں کیسی شدید تکلیف، کس قدر اذیّت میں مبتلا ہوگیا ہوں، مَیں تو رنگوں، روشنیوں کی ایک بےحد حسین دنیا کا باسی ہوں، تو پھر یہ کیسی خوف ناک دنیا ہے؟‘‘ تکلیف کی شدّت میں وہ خود ہی سے سوال کررہا تھا۔ ’’یہی حقیقی دنیا ہے، جس سے تم ابھی تک اَن جان تھے۔ یہی حقیقی تلخ زندگی ہے، جس کی کڑواہٹوں سے تم آج تک نا آشناتھے۔ تو کیسی لگی تمہیں یہ حقیقی زندگی؟‘‘ سامنے کھڑا پیڑ اُس سے مخاطب تھا۔
’’یاخدا! یہ کیا ماجرا ہے، درخت کیسے بول سکتے ہیں، یہ کیسی عجیب و غریب دنیا ہے…؟‘‘ وہ گھبرا کے چلّا اٹھا۔ اُس کے شور سے جنگلی جانوروں کی آوازوں میں مزید شدّت آگئی۔ وہ اپنےاردگرد موجود آدم زاد کی آواز پہ حیران تھے۔ وہ خوف زدہ ہو کر درخت کی مزیداوٹ میں ہوگیا۔ ’’ہاہاہا…یہ وہ دنیا ہے، جو گونگوں کو بھی بولنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ یہاں جو بھی چلا آئے، پھرساری عُمر اس کی روح بین ہی کرتی رہتی ہے۔ آنکھیں اُداسیوں کا استعارہ بن جاتی ہیں۔ یہاں آنے والے ہر انسان کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھرجاتا ہے اور پھر وہ عُمر بھر اپنے بکھرے وجود کےٹکڑے ہی اکھٹےکرتارہ جاتا ہے۔ یہاں سے واپسی کے بعد نہ موسموں میں کوئی کشش رہتی ہے،نہ دنیا کاکوئی حسین منظرحسین دکھائی دیتا ہے۔‘‘
درخت کی عجیب و غریب باتوں نے اُس پہ لرزہ طاری کردیا۔ اِس دہشت ناک منظر میں اُسے خود پہ اپنا اختیار ختم ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ جیسے کوئی اس کے دل و دماغ کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ہاتھ پاؤں جکڑ رہا ہو۔ سب کچھ اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش میں لگا ہو۔ ’’کیا یہاں آسیب بھی ہیں، جو مجھے یوں جکڑ رہے ہیں؟‘‘ اُس کےحواس ابھی بھی کچھ حد تک بحال تھے۔’’یہ آسیب نہیں بلکہ حقیقی زندگی کے خوف ناک پھندے ہیں، جو دل، دماغ، روح سب کو جکڑلیتےہیں۔ انسان بےاختیارہوجاتا ہے۔ سب اختیارات چِھن جاتے ہیں۔ قدم اُس سمت میں اُٹھنےلگتے ہیں، جس کا انسان نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوتا۔
زبان پہ مستقل قفل پڑجاتے ہیں۔ سوچنے کا اختیار چِھن جاتا ہے، بس اک خالی پن ذہن کو اپنےحصار میں لے لیتا ہے۔ یہ بےاختیاری انسان کو کبھی کبھی پاگل پن کی طرف بھی دھکیل دیتی ہے۔ نامعلوم طاقتیں ذہن کو اپنی خواہش کے مطابق ہانکنے لگتی ہیں۔ زندگی اِک خواب کی طرح دکھائی دینے لگتی ہے اور پھر انسان بےتابی سے اُس خواب کے ختم ہونے کا انتظار کرنےلگتا ہے۔ جانتے ہو، اس خواب کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟؟‘‘ ایک ہول ناک آواز، ایک سوال کے ساتھ خاموش ہوگئی۔’’کیسے ہوتا ہے…؟‘‘ اس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں پوچھا۔ درخت کی بیان کی گئی کیفیات، خود میں پا کر وہ اُس کی باتوں میں کھو سا گیاتھا، حالاں کہ اُس میں اب کچھ سُننے، بولنے کی سکت بھی نہ بچی تھی۔
’’موت کی صُورت میں…؟‘‘ درخت نے لفظ موت پہ زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’کک… ککیا… موت؟‘‘ موت کا لفظ سُنتے ہی اس پہ لرزہ پوری شدّت سے طاری ہوگیاتھا۔ وہ خوف سے تھر تھرکانپ رہا تھا۔ اُس کی عُمر ایسی تھی کہ جب انسان موت کے بارے میں بہت ہی کم سوچتا ہے۔ اگر کبھی خیال آئے بھی تو فوراًجھٹک دیتا ہے، لیکن اس خوف ناک ماحول میں موت کے بارے میں سُنتے ہی وہ سخت خوف زدہ ہو گیاتھا۔
’’گھبراؤ نہیں، حقیقی زندگی کی قید میں آنے کے بعد انسان موت کو نعمت سمجھنے لگتا ہے۔ موت تو اُس کے لیے آزادی اور رہائی کی پیام بن کر آتی ہے۔موت ہی حقیقی زندگی کی سب سےبڑی حقیقت بن کے سامنے آتی ہے۔ حقیقی زندگی کا ایک پھندا، موت کےخوف کا پھندا بھی ہوتاہے لیکن وقت گزرنے کےساتھ ساتھ یہ پھندا، رہائی کی نویدنظر آنےلگتا ہے۔‘‘ درخت کی آواز قدرے دھیمی ہو چُکی تھی۔ ’’مجھے یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب بتاؤ۔‘‘ وہ روہانسا ہو کے کہہ رہا تھا۔ ’’تمہیں کیا لگتا ہے، تم یہاں سے نکل کے رِہا ہو جاؤ گے؟ یہاں جو ایک مرتبہ آگیا، وہ زمین کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، وہ حقیقت کے اس خوف ناک جنگل کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ تم شاید یہاں سے نکل بھی جاؤ، مگر اب اِس قید سے آزادی ناممکن ہے۔‘‘ درخت کی یہ باتیں سن کر اُس کی رہی سہی ہمت بھی ختم ہوگئی۔ اُس کے حواس مکمل طور پہ جواب دے چُکے تھے۔
اُسے جب ہوش آیا، تو وہ اُسی جگہ موجود تھا۔ اندھیرا نما روشنی اُسے صبح کا پتا دے رہی تھی۔ اُس نے اپنی ساری ہمّت جمع کرنے کی کوشش کی، اپنے بکھرے وجود کو سمیٹا۔ اُٹھتے ہوئے اُسے محسوس ہوا، جیسے اُس کا جسم، اُس کی رُوح ریزہ ریزہ ہو چُکی ہے۔ اُسے اپنےاِس بکھرے وجود کو سمیٹنا تھا اور اِس جنگل سے باہر نکلنا تھا۔ آج وہ خود ہی اپنا رہبر، اپنا غم خوار، اپنا ساتھی، اپنا ہم درد، اپنا ہم راہی، اپنا سب کچھ…خود ہی تھا۔ جو کچھ کرنا تھا، اُسے خود ہی کرنا تھا۔ اپنی ساری ہمّت مجتمع کر کے اُس نے دیوانہ وار دوڑنا شروع کردیا۔ بس ایک اُمیدہی تھی، جو اُسے سہارا دیئے ہوئے تھی۔ دوڑتے دوڑتے اُس کے پاؤں زخمی، شل ہو چُکے تھے۔
کئی مرتبہ ٹھوکر لگ کر گرنے کے سبب اُس کا جسم زخموں سے چُورچُور تھا۔ تمام جسم درد سے کراہ رہا تھا۔ اُسے ان زخموں کی ذرا پروا نہ تھی، وہ تو بس یہاں سے باہر نکل جانا چاہتا تھا۔ ’’حقیقت کے جنگل سے باہر نکلتے نکلتے صرف تمہارا جسم ہی زخمی ہوا ہے۔ اور شاید تم یہاں سے نکل بھی جاؤ، لیکن حقیقت کے بچھائے گئے جال سے نکلنا اب کبھی ممکن نہیں بلکہ اِس طرح نکلنے کی کوشش میں تو تمہاری رُوح بھی زخمی ہو جائےگی۔ اور یاد رکھنا جسم کے زخم کم محسوس ہوتے ہیں، بَھر جاتے ہیں لیکن روح پہ لگنے والے زخموں کا کوئی مرہم نہیں۔ وہ کبھی نہیں بھرتے، کبھی نہیں۔‘‘ اسے دُور کسی سمت سے آتی درخت کی آواز سنائی دی۔
بالآخر اُسے باہر جانے کا راستہ دکھائی دے ہی گیا۔ تیزتیز قدم اُٹھاتا، وہ اُسی باغ، تتلیوں،رنگوں اور پھولوں کےحسین باغ کی طرف جانکلا۔ لیکن اب اُس کے لیے، اُس میں کوئی کشش باقی نہ رہی تھی۔ یہ حسین باغ اُسے سراب لگنے لگا تھا۔ اُس کاحُسن، اس کی خُوب صورتی و دل کشی، رعنائی سب سے اُسے مصنوعی پَن چھلکتا دکھائی دے رہا تھا۔ ’’ایک تتلی کے سراب نے مجھے حقیقت سے متعارف کروا دیا۔ مجھے وحشتوں کے جنگل کا مسافر بنا دیا۔ اےکاش! مَیں اُس کے پیچھے نہ بھاگا ہوتا۔ اےکاش! مجھ پہ آگاہی کے در وا نہ ہوئے ہوتے۔‘‘ اُس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
خُوب اشک بہانے کے بعد، جیسےاُس سے آنسو بہانے کی طاقت بھی چھین لی گئی۔ مُسکراتی آنکھوں میں ایک طویل اُداسی اُتر چکی تھی۔ ایک ایسی اُداسی، جو اب ہمیشہ کے لیے اُس کی آنکھوں کا مسکن بننے جا رہی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ اُداس آنکھیں، خاموش لب، چہرےپہ گہری سنجیدگی لیےکوئی اُس کامنتظر تھا۔ اس میں موجود ہنستا مُسکراتا بچّہ تو کہیں دُور کسی میلے میں کھو چُکا تھا۔ اُس بچّے کی جگہ تو اب کسی صدیاں دیکھنے والے بوڑھے نےلے لی تھی۔ درد کی ایک شدید لہر اس نے اپنےپورے وجود میں محسوس کی۔ اُس کے لب آئینہ دیکھتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکے، ’’کیا یہ مَیں ہی ہوں…؟‘‘
افسانے کے اختتام پہ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا۔ کئی آنکھوں میں، کسی بھی پَل بہہ جانے والی نَمی بَھری تھی۔
’’اب ہم اسراء صاحبہ کو دعوت دیں گے کہ وہ اپنی کام یابی کی داستان ہمارے گوش گزارش کریں۔ ‘‘ میزبان نے وقت کی کمی کے پیشِ نظر ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر، اسراء کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ تو سفید دوپٹّے میں نور کے ہالے کی طرح چمکتا دمکتا چہرہ لیے، جس سے نکلتی شعائیں سارے ہال کو منوّر کر رہی تھیں، وہ اسٹیج پر چلی آئی کہ وہ میزبانوں کے حددرجہ اصرار، اور غضنفر کی شدید خواہش کو لاکھ کوشش کے باوجود رَد نہیں کر سکی تھی۔
’’تمام سامعین پہ اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔
دراصل انسان اس دنیا میں جب آتا ہے، تو اپنی بے پناہ ضروریات ساتھ لے کر آتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی یہ ضروریات بڑھتی ہی رہتی ہیں۔ اُس کی مادّی ضروریات، ذہنی و جسمانی ضروریات… اور اِن کے ساتھ ایک ضرورت اور بھی ہے انسان کی۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو رُکی تھی۔
’’ اور وہ ضرورت ہے، رُوحانی ضرورت۔ جسم کی پرورش جاری رہے، لیکن رُوح کی ضروریات پوری نہ ہوں، تو رُوح مر جھا جاتی ہے۔ جب رُوح مر جائے تو انسان بظاہر کھاتا پیتا، زندگی کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے، لیکن اُسے حقیقی خوشی، آسودگی کبھی نہیں مل پاتی۔ کچھ لوگوں میں روحانی طلب، دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اور مَیں بھی اُن ہی لوگوں میں شامل تھی۔ مَیں ایک ایسی کشتی کی مانند تھی، جو سمندر میں کھڑی اپنی سمت سے بےخبر ڈولتی چلی جا رہی تھی۔ لیکن کہتے ہیں ناں کہ طلب کی شدّت بالآخر ہمیں مطلوب تک لے ہی جاتی ہے۔ سو، کچھ لوگوں کی رہنمائی میں آخرکار مجھے بھی اپنےمَن کےدھندلے عکس کو واضح طور پردیکھنے کا موقع ملا۔
میری طلب کو سچّاجان کر ایک اہم شخصیت نے، جو اب اِس دنیا میں موجود نہیں ہیں، میرے لیے اِک راہ متعیّن کردی۔یہاں رسیم صاحب موجود ہیں، مجھے یاد ہے، ایک دفعہ ایک تقریب میں اِنھوں نے ایک جملہ کہا تھا، اگر مَیں کہوں کہ وہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ(نقطۂ انقلاب) تھا، تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ وہ جملہ کچھ یوں تھا ’’تخلیق کار اپنی ہر تخلیق سے عشق کرتا ہے، کیوں کہ وہ اُس کی ذات کا مظہر ہوتی ہے۔ خالق خود اپنی تخلیق میں کہیں نہ کہیں ضرور پوشیدہ ہوتاہے۔‘‘ اوربس… اِسی سوچ نے میرا نقطہ نظر بدل دیا۔ طلب کو تو میں جان چُکی تھی۔
یہاں سےمجھےمطلوب تک رسائی بھی حاصل ہوگئی۔ اصل میں طلب، طالب، مطلوب کا آپس میں گہرا تعلق ہےاور اِن سب کو آپس میں جوڑ کر رکھنے والی شے محبّت ہے۔ آپ کبھی کسی دُکھی، روتے ہوئے شخص کےغم کو مُسکراہٹ میں بدل کے دیکھیے گا۔ اُس کی مُسکراہٹ میں آپ کو خدا نظر آئے گا۔ کسی پریشان حال کی پریشانی دُور کر کےدیکھیں، اُس کے چہرے پہ آسودگی کی چمک میں خدا آپ کے لیےاپنے آپ کو ظاہر کرے گا۔ ہر شخص میں خدا کسی نہ کسی صُورت پوشیدہ ہے۔ سو، انسان سے محبّت کیجیے، وہ رب کی تخلیق، رب کا خیال ہے اور یہی میرا پیغام ہے۔ دل میں محبّت کا دیا ہر دَم روشن رکھیں۔ چار سُو، ہر منظرہرعکس خود واضح ہو جائے گا۔ بہت شکریہ۔‘‘
اسراء، اسٹیج سے اُتر کر اپنی نشست تک پہنچ چُکی تھی، مگر تالیوں کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ اِس قدر پزیرائی پر اُس کی رُوح تک سرشار تھی۔ اُس نےاللہ کی خاطر اللہ کے بندوں کو خُوش کرنے کی ٹھانی تھی، اور آج ایک خلقت، اُس کے کام کی معترف، اُس کے سَچّے و سُچّے احساسات و جذبات کی قدر دان تھی۔ یہ عزّت و نیک نامی، اللہ نے اُسےدی تھی۔ اور بقول غضنفر، اللہ جسے عزّت و احترام کےقابل سمجھتاہے، اُسےہی یہ شان و مرتبہ عطا کرتا ہے۔
’’اب ہم اپنے نام کی طرح منفرد شخصیت کے حامل، عظیم مصوّر رسیم صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ ہمیں اپنی داستانِ حیات سےبہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کریں۔‘‘میزبان کی آوازہال میں گونجی، اور پُرزور تالیوں کے شور میں تقریب کےتیسرےمہمانِ خصوصی کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔
دیدہ زیب سیاہ کوٹ پینٹ میں ملبوس، اپنی سحر انگیز شخصیت کے لَو دیتے تاثر کے ساتھ، بڑے نپے تُلے قدموں سے رسیم نے اسٹیج پر قدم رکھا اور آتے ہی مائیک سنبھال کر بولنا شروع کردیا، مگر ہال میں بیٹھی نہ جانے کتنی ہی خواتین کے دِل پہلو میں دھڑک کے رہ گئے۔ ’’خواتین و حضرات! قصّہ کچھ یوں ہے کہ برسوں پہلے، مَیں مسلسل کئی راتوں تک ایک ہی سپنا دیکھتا تھا۔ مَیں بس خلا ہی خلا دیکھتا اور خلا کے وسط میں کسی شے کا وجود پاتا۔ جس کے گرد دائرے میں کئی اور چیزیں یا شاید دنیائیں گھومتی نظر آتیں۔ مَیں نے خود کو بھی اس خلا میں موجود پایا اور وسط میں موجود شے کی کشش مجھے بھی اپنی سمت کھینچ رہی تھی۔
اِس کشش نے ہر ایک کو مجھ سے ایک فاصلے تک محدور کر رکھا تھا۔ لیکن اس وسط کی کشش کی وجہ سے کوئی شے نہ نیچے گرتی تھی، نہ ہی اس احاطے سے باہر نکل رہی تھی۔ اُن دنوں مجھ پہ بس وحشتیں حاوی رہتی تھیں۔ زندگی سے جذبات و احساسات کا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ ہر اجنبی شے میری وحشت کو بھڑکاتی، حتٰی کے صبح کی روشنی بھی، لوگوں کا وجود بھی، حسین موسم بھی۔ ایک طرح سے مَیں نفسیات کا ایک پیچیدہ معما بن کے رہ گیا تھا۔ میری شخصیت کاالجھاؤ، مجھے رنگوں میں بدل دیتا تھا۔ مَیں خود کینوس پہ بکھر بکھر جاتا تھا اور لوگ کہتے، ’’واہ کیا عُمدہ شاہ کار ہے‘‘ اگرچہ میرا فن اپنی انتہاؤں کو چھونے لگا تھا، لیکن میری وحشتیں، شدّتیں مجھے اندر ہی اندر نگل رہی تھیں۔
مجھے خوف آتا تھا کہ میرا انجام کتنا بھیانک ہوگا۔ پھر ایک مجھ سے عُمر میں بہت چھوٹی، ایک مَن چلی سی لڑکی میری زندگی میں چلی آئی، جو مجھے اَن جانے ہی میں، بہت غیر محسوس طریقےسے یک جائی کا درس دے گئی۔ مجھے اپنی ذات کے سلجھاؤ کے لیے کسی مرکز پہ توجہ کا گُر سِکھا گئی۔ مَیں اس کے کہے پہ نہ بھی چلتا، لیکن قدرت نے بھی مجھے سدھارنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ ایک فن پارے سےایک رُوح تک کا سفر۔ مادّی دنیا سے، اسیری کی دنیا تک کا یہ سفر میرے دل و دماغ پہ پڑے پَردوں کو ہٹا کر اُنھیں کو ایک مرکز پہ اکھٹا کر گیا۔ اگر مَیں محض دماغ کی حُکم رانی پر سرِ تسلیم خم کرتا رہتا، تو میری روح آج بھی کسی پیاسے صحرا کی طرح سیرابی کی متلاشی ہی ہوتی اور اگر مَیں محض دل کی دنیا کا مسافر ٹھہرتا تو شاید جذبات کے سیلِ رواں کے ساتھ بہتاچلاجاتا۔
درحقیقت رُوح کا رستہ، حقیقی رستہ ہے۔ اور یہ رستہ دل و دماغ کے ہی توازن سے وجود میں آتا ہے۔ مجھے یک جائی کیا ملی، آرزوئیں، تمنائیں، خوشیاں، غم… اَن گنت خیالات و احساسات میری وحشتوں کو دھکیل کر اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہو گئے۔ ایک ٹھوکر مجھے سیدھا کھڑا کر گئی۔ بہت عرصے بعد جب مَن کے دھندلے عکس سے دُھند ہٹی، تو محسوس ہوا، وہ خواب میں جو نقطہ تھا، وہ تو مرکزِ محبّت تھا۔ محبّت خدا ہے اور خدا محبّت۔ جب دل کی دنیا میں محبّت کی آمد ہوتی ہے، تو وہ درحقیقت خدا کی آمد ہوتی ہے۔
جذبات جاگ اٹھتے ہیں، انسان کسی روبوٹ سے انسان میں ڈھل کر محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تخلیق سے محبّت، دراصل خالق سے محبّت ہے۔ ہر انسان خدا کا مظہر، اُس کا عکس ہے۔ اپنے مَن کے دھندلے عکس کو ہم محبّت سے صاف کرنے کے بعداندر کی دنیا میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں۔ تلاش کو منزل مل جاتی ہے،جیسے میری مصوّری، اب قدرت کے ہر رنگ، ہر خیال سے مزیّن ہو چُکی ہے۔‘‘ رسیم سانس لینے کو رُکا، تو پورے ہال پر سکوت طاری تھا۔
چند لمحے توقف کے بعد رسیم نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’مَیں، اسراء، نایاب اور سولہویں صدی کی غادہ… ہم سب وہ ’’دھندلے عکس‘‘ ہیں، جنھیں لوگ اجنبی، دیوانے، پاگل، سودائی، مَن چلے… اور جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ مگر ہم اِلہام کا بوجھ سہہ کر، پہلے خود اُن الفاظ، اُن رنگوں میں ڈھلتے ہیں، جنھیں دنیا ہماری تخلیق کی صُورت دیکھتی ہے۔ ہمیں اپنے فن کے بَھرے پیالے کو سامنے لانے کے لیے، اپنے اندر کو ٹھوکرلگانی پڑتی ہے۔ اور ٹھوکر جتنی گہری، ضرب جتنی کاری ہوتی ہے، روانی اُتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے۔
ہمیں دنیا کو ہر حقیقت ٹرے میں رکھ کر پیش کرنے سے پہلے اپنے عکس کو بڑی محنت سے دھونا پڑتا ہے، تاکہ لوگ اس حقیقت کو واضح طور پردیکھ پائیں۔ لیکن پھر بھی ہم میں اور باقی دنیا میں ایک فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ تو شاید… اگر ہم اپنے مَن میں محبّت کی افزائش کریں تو محبّت کی یہ لہریں ہماری ذات کے ’’دھندلے عکس‘‘ سے وحشتوں کا صفایا کر کے ہمیں دنیا کے سامنے اور خود ہمارے سامنے بھی ایک متوازن رُوپ میں پیش کرسکیں۔‘‘ رسیم اپنی بات مکمل کرکے اپنی نشست تک جا چُکا تھا، مگر ہال میں بیٹھے نہ جانے کتنے’’دھندلے عکس‘‘ایک دوسرے کو بالکل صاف دکھائی دینے لگے تھے۔
***********ختم شد***********