• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اسماء کاشف

اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک ایسا ’’اسمارٹ سسٹم‘‘ نصب کیا ہے، جس کا کام جسمانی اُتار چڑھاؤ کا توازن برقرار رکھنا ہے۔ اس سسٹم میں کئی اقسام کے غدود مختلف افعال انجام دیتے ہیں، جن میں سب سے اہم تھائی رائیڈ گلینڈ ہے۔ قدرتی طور پر ہمارا جسم تھائی رائیڈ ہارمونز بناتا ہے، جو جسم میں پائے جانے والے مختلف نظاموں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی وجہ سےاس گلینڈکے افعال میں گڑبڑ پیدا ہو جائے یعنی ہارمونز کم یا زیادہ تعداد میں بننے لگیں، تو تھائی رائیڈ کا مرض لاحق ہوجاتا ہے، جس کی کئی اقسام ہیں۔

مثلاً ہائپر تھائی رائیڈ ازم، ہائپو تھائی رائیڈز، تھائی رائیڈائٹس اور Hashimoto’s Thyroiditis۔تھائی رائیڈ گلینڈ جب درست طریقے سے اپنے افعال انجام نہیں دے پاتا، تو اس کے اثرات دیگر جسمانی امور پر بھی مرتّب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تھائی رائیڈ گلینڈ کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے دُنیا بَھر میں امریکن تھائی رائیڈ ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام ہر سال جنوری کا پورا مہینہ ’’تھائی رائیڈ گلینڈ اوئیرنیس‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ذیل میں اسی مناسبت سے ایک معلوماتی مضمون شایع کیا جارہا ہے۔

تھائی رائیڈ گلینڈ ایک چھوٹاسا عضو ہے، جو گردن کے سامنے واقع ہے اور ٹریکیا (Trachea) کے گرد لپٹا ہوتا ہے۔ یہ تتلی کی مانند دکھائی دیتا ہے۔واضح رہے،جسمانی افعال کوایک خاص حد میں رکھنے میں ہارمونز کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جو تھائی رائیڈگلینڈ میں تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہ ہارمونز زیادہ تعداد میں بننے لگیں تو ہائپر تھائی رائیڈ ازم کا مرض لاحق ہوجاتا ہے اور اگر کم مقدار میں بنیں ،تو اس علامت کوہائپو تھائی رائیڈ ازم سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان دونوں عوارض کا بروقت علاج ناگزیر ہے، بصورتِ دیگر متعدّد پیچیدگیاں لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

تھائی رائیڈ گلینڈ، میٹابولزم کے عمل میں بھی اہم گردانا جاتا ہے۔ میٹابولزم ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے غذا توانائی میں تبدیل ہو کر پورے جسم میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے، تاکہ جسمانی اعضاء بہتر اور درست طریقے سے اپنے افعال انجام دے سکیں۔ میٹابولزم کو ہم جسمانی جنریٹر بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ خام توانائی حاصل کرکے اسے کسی بڑی چیز کو طاقت دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اورتھائی رائیڈ گلینڈ، میٹابولزم کو چند مخصوص ہارمونز کے ساتھ کنٹرول کرتا ہے، جنہیں طبّی اصطلاح میں ٹی تھری اور ٹی فور سے موسوم کیا گیا ہے۔

ٹی تھری سے مُراد "Triiodothyronine" ہے، جو تین آئیوڈائیڈ ز پر مشتمل ہے، جب کہ ٹی فورتھائی راکسن (Thyroxine) کہلاتا ہے اور یہ چار آئیوڈائیڈزپر انحصار کرتا ہے۔ یہ دونوں ہارمونز ،تھائی رائیڈ کے ذریعےنمو پاتے ہیں اور خلیات کو اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کس قدر توانائی استعمال کرنی ہے۔ جب تھائی رائیڈ گلینڈدرست طریقے سے کام کرتا ہے، تو میٹابولزم اپنے افعال کی انجام دہی کے لیے ہارمونز کی مقررہ تعداد برقرار رکھتا ہے اورپھرجوں جوں ہارمونز استعمال ہوتے ہیں، تھائی رائیڈ متبادل پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ 

یہ پورا عملPituitary Gland کی زیرِ نگرانی انجام پا تا ہے۔ پِٹیوٹری گلینڈ ،خون میں تھائی رائیڈ ہارمونز کی مقدار مانیٹر کرنے کے ساتھ انہیں کنٹرول کرتا ہے،لہٰذا جب پِٹیوٹری گلینڈ جسم میں تھائی رائیڈ ہارمونز کی کمی یا زیادتی محسوس کرتا ہے، تو ایک مخصوص ہارمون کے ذریعے اس کی مقدار متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مخصوص ہارمون طبّی اصطلاح میں ٹی ایس ایچ یعنی"Thyroid-Stimulating Hormone"کہلاتا ہے، جو ایک مربوط نظام کے تحت پِٹیوٹری گلینڈ، ٹی ایس ایچ تھائی رائیڈ تک منتقل کرتا ہے اورتھائی رائیڈ کو یہ بتاتا ہے کہ جسم کو معمول پر لانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہائپر تھائی رائیڈ ازم میں چوں کہ تھائی رائیڈ گلینڈ زائد مقدار میں ہارمونز بناتا ہے، تو جسم بہت تیزی سے توانائی استعمال کرتا ہے۔ توانائی کا تیزی سے استعمال تھکاوٹ سے دوچار کردیتا ہے، جب کہ دِل کی دھڑکن بھی تیز ہوجاتی ہے۔ نیز،یہ وزن کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور گھبراہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہائپو تھائی رائیڈازم میں وزن تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ معمولی سی سردی بھی برداشت نہیں ہو پاتی۔ ہر وقت تھکن کا احساس غالب رہتا ہے۔جسم کی چُستی اور پُھرتی ختم ہوجاتی ہے۔یوں تو ہائپر اور ہائپو تھائی رائیڈ ازم لاحق ہونے کی مختلف وجوہ ہیں، مگر ان دونوں عوارض کا شمار موروثی بیماریوں میں کیا جاتا ہے۔

ہائپو تھائی رائیڈازم لاحق ہونے کے دیگر اسباب میں تھائی رائیڈائٹس، Hashimoto's Thyroiditis ،پوسٹ پارٹم تھائی رائیڈائٹس اور آیوڈین کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔٭تھائی رائیڈائٹس ، درحقیقت تھائی رائیڈ کی سوزش (سوجن) ہے،جو تھائی رائیڈ سے جنم لینے والے ہارمونز کی مقدار کم کر دیتی ہے۔٭Hashimoto's Thyroiditis ایک موروثی اور بغیردرد کے ہونے والی بیماری ہے، جس میں جسم کے خلیات تھائی رائیڈ پر حملہ کرتے اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔٭ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 5سے 9 فی صد خواتین بعد از زچگی پوسٹ پارٹم تھائی رائیڈائٹس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ 

یہ عام طور پر ایک عارضی تکلیف ہے۔٭تھائی رائیڈ غدود کو تھائی راکسن کی تیاری کے لیے ایک اور اہم عُنصرآئیوڈین کی لازماً ضرورت پڑتی ہے۔اگرجسم میں آئیوڈین کی کمی واقع ہوجائے تو بھی ہائپو تھائی رائیڈازم کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ یاد رہے، پوری دُنیا میں کئی ملین افراد آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں۔٭بعض کیسز میں پیدایشی طور پربھی تھائی رائیڈ گلینڈدرست طریقے سے کام نہیں کرتا۔ ہر چار ہزار نوزائیدہ بچّوں میں سے ایک بچّہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر بروقت اور درست علاج نہ کروایا جائے، تو کئی طرح کے جسمانی اور ذہنی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ نوزائیدہ بچّوں کے تھائی رائیڈگلینڈکی کارکردگی جانچنے کے لیےخون کی اسکریننگ کا ٹیسٹ لازماً کروایا جائے۔

ہائپر تھائی رائیڈ ازم کا سبب بننے والے عوامل میں گریوزڈیزیز (Graves Disease)، نوڈیولز (Nodules) اور ضرورت سے زائد آیوڈین کا استعمال شامل ہے۔٭گریوزڈیزیز میں تھائی رائیڈ غدود زیادہ فعال ہو سکتا ہے اور زیادہ تعداد میں ہارمونزپیدا کرسکتا ہے۔ اسے ڈفیوز ٹوکسک گوئٹر (Diffuse Toxic Goiter)بھی کہا جاتا ہے۔٭بعض کیسز میں ہائپر تھائی رائیڈازم، تھائی رائیڈ گلینڈکے اندر زیادہ فعال ہونے والے نوڈیولزکی وجہ سے بھی لاحق ہوجاتا ہے۔

طبّی اصطلاح میں ایک نوڈیول "Toxic Thyroid Nodule"کہلاتا ہے، جب کہ کئی نوڈیولز والے غدود"Toxic Multinodular Goiter"کہلاتے ہیں۔٭تھائی رائیڈائٹس عارضہ یا تو تکلیف دہ ہوسکتا ہے یا بالکل محسوس نہیں ہوتا۔ اس مرض میںتھائی رائیڈ گلینڈذخیرہ شدہ ہارمونز استعمال کرتا ہے،جن کی رسدچند ہفتوں یا مہینوں جاری رہتی ہے۔٭جب جسم میں زیادہ مقدار میں آیوڈین (وہ معدنیات جو تھائی رائیڈ ہارمونز بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں) پائی جائے، تو تھائی رائیڈ اپنی ضرورت سے زیادہ تھائی رائیڈ ہارمونز بناتا ہے،جو ہائپر تھائی رائیڈازم کا سبب بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات مخصوص ادویہ اور کھانسی کے شربت بھی آیوڈین میں اضافے کی وجہ بنتے ہیں۔ اگرکوئی فرد درج بالا علامات محسوس کرےتو بہتر ہوگا کہ معالج سے فوری طور پر رجوع کرلیا جائے۔

تھائی رائیڈ ایک عام مرض ہے، جو مَرد، خواتین، شیرخوار بچّوں، نو عُمر اور بوڑھے افراد ،غرض کہ کسی کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ایک سروے کے مطابق ریاست ہائے متحدہ میں تقریباً 20ملین افراد کسی نہ کسی قسم کے تھائی رائیڈ ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں، جب کہ ایک خاتون میں مَرد کی نسبت تھائی رائیڈ بیماری تشخیص ہونے کے تقریباً پانچ سے آٹھ گنا زائد امکانات پائے جاتے ہیں۔ تھائی رائیڈ مرض سے متاثر ہونے کے امکانات اُن افراد میں بُلند ہیں، جن کی فیملی ہسٹری میںتھائی رائیڈ ڈس آرڈر موجود ہو، جوخون کی کمی، ذیابطیس ٹائپ وَن کا شکار ہوں۔

جو ایسی ادویہ یا خوراک استعمال کرتے ہوں، جن میں آیوڈین کی مقدار زیادہ پائی جائے۔ایسے60سال سے زائد عُمر افراد، خاص طور پر خواتین،جنہوں نے کینسر (تاب کاری) کا علاج کروایا ہو۔ (مضمون نگار نے ایم بی بی ایس کے بعدڈاؤ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائی بیٹیز اینڈ اینڈوکرینالوجی،کراچی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور اب اِسی انسٹی ٹیوٹ میں خدمات انجام دے رہی ہیں )

مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!

اگر آپ شعبۂ طب سے وابستہ ہیں اور لکھنے کےشائق ہیں، تو ہمیں سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیےاپنے علم، تجربات اور مشاہدات پر مبنی تحریریں ارسال کرسکتے ہیں، تاکہ عام افراد مختلف امراض اور اُن سے بچاؤ سے متعلق حفاظتی تدابیر سے آگاہ ہوسکیں۔ لکھنے کے شوقین معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں ۔ نیز، مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں، کیوں کہ کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی اصطلاحات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے،اپنی تحریریں اِس پتے پر ارسال فرمائیں۔

ایڈیٹر، سنڈے میگزین، صفحہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی۔

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید