نازلی فیصل، لاہور
کورونا کی چوتھی لہر نے ماہِ اگست میں خطرے کا ایسا الارم بجایا کہ ویکسین لگوانے کا عمل جو کچھوے کی مانند رینگتا نظر آرہا تھا، یک دَم ہی خرگوش کی طرح دوڑنے لگا اور جو افراد غلط فہمیوں اور بعض افواہوں کی وجہ سے ویکسین لگوانے سے ڈر رہے تھے، تمام تر تحفّظات کے باوجود بالآخر ویکسین لگوانے پر مجبور ہوگئے۔
یوں لگنے لگا، گویا کسی جنگ کا طبل بج گیا ہو۔ کورونا کو ’’نہ‘‘ اور ویکسین کو ’’ہاں‘‘ کا نعرہ ہر گلی، کوچے میں ایسا گونجا کہ کہاں تو سخت ہدایات کے باوجود کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تھی، اور کہاں لوگ جُوق در جُوق ویکسین لگوانے مقررہ سینٹرز پہنچنا شروع ہوگئے کہ جب ’’نو ویکسین، نو سروس‘‘، ’’نو ویکسین، نو پیٹرول‘‘، ’’نو ویکسین، نو ٹرانسپورٹ‘‘، ’’نو ویکسین، نو شاپنگ‘‘ کی وجہ سے ہرجگہ داخلہ بند ہوتا نظر آیا تو سُستی کے مارے لوگ بھی قلانچیں بھرنے لگے۔
بلاشبہ یہ تمام اقدامات ضروری بھی تھے کہ اس وبا سے مقابلے کی کوئی اور صُورت موجود ہی نہیں۔ جبری بندشیں اور دُنیاوی سہولتوں سے محروم کردینا، اس مسئلے کا وقتی حل تو تھا، لیکن مستقل طور پر اسے اپنانا نا ممکن تھا اور ویکسی نیشن کا عمل سُست روی کا شکار اسی لیے ہوا کہ مختلف افواہیں گردش میں رہیں۔ حالاں کہ افواہیں پھیلانا ہماری دینی تعلیمات کے سخت خلاف ہے۔ چوں کہ اب بھی متعدّد افراد ویکسین لگوانے سے گھبرارہے ہیں، تو ہنوز شعور و آگہی ناگزیر ہے۔
اس ضمن میں علمائے کرام کا تعاون مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ بہرکیف، ہمیںمل جُل کر یہ ذمے داری ادا کرنی ہوگی، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کسی خوف یا دباؤ کا شکار ہوئے بغیر اپنی اور اہلِ خانہ کی ویکسین کروائیں، خاص طور پر ایسے گھرانے جنہوں نے کووڈ-19کے سبب اپنے پیاروں کو کھودیا۔ ان دُکھی خاندانوں کو مورال سپورٹ دینا اور ویکسین کے لیے آمادہ کرنا ہم سب کا اوّلین فرض ہے۔
اللہ کا شُکر ہے کہ اب صُورتِ حال بہتری کی طرف گام زن ہے،جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ہم ذمّے داری، سمجھ داری اور احتیاط سے کام لے کر کسی بھی مصیبت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔تاہم، طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک زیادہ سے زیادہ افراد ویکسی نیٹڈ نہیں ہوجاتے، تو اس مُوذی مرض سے ہمیشہ کے لیے نجات ناممکن ہے۔ لہٰذا ازحد ضروری امر ہے کہ جن لوگوں نے اب تک ویکسین نہیں لگوائی، وہ ذمّے داری کا ثبوت دیں اور گومگو کی کیفیت سے نکل کر جلد از جلد ویکسی نیشن کرواکے ویکسی نیٹڈ افراد میں شامل ہوجائیں۔