غذا کی نالی میں معدے کی رطوبت اور غذائی اجزاء دیر تک موجود رہیں، تو طبّی اصطلاح میں اس مرض کو جی ای آر ڈی یعنی Gastroesophageal Reflux Disease سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس مرض میں غذا کی نالی متوّرم ہوجاتی ہےاورسینے میں جلن بھی محسوس ہوتی ہے۔ معدے کے اجزاءکو غذا کی نالی میں جانے سے روکنے کے لیے کئی عوامل کام کرتے ہیں، جن میں سب سے اہم غذاکی نالی کا Sphincterیا والو ہے، جو اس نالی کے نچلے حصّے میں ہوتا ہے۔
یہ والو معدے میں غذا داخل ہونے بعد قدرتی طور پر بند ہو جاتا ہے۔ یہ عمل ایک منظم نظام کے تحت انجام پاتا ہے، لیکن اگر کسی بھی سبب اس نظام میں گڑبڑواقع ہوجائے، تو والو کام نہیں کرتا اور غذا کی نالی مسلسل ایسڈ اور پیپ سے بَھری رہتی ہے، نتیجتاً غذا کی نالی میں ورم اور تیزابیت پیدا ہوجاتی ہے۔جی ای آر ڈی میں مبتلا ہونے کی وجوہ میں sphincterکے ٹون میں کمی، ایسڈ کا نیچے کی طرف کم بہائو، غذا کی نالی اور معدے کی حرکت میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بعض کیسز میں حمل، موٹاپا، بسیار خوری، بعض ادویہ، تمباکو نوشی، چاکلیٹس، مرغّن اور تیز مرچ مسالے والی غذائیں، کافی، الکحل کا استعمال اور ہرنیا وغیرہ بھی محرّک بن سکتے ہیں۔ اس مرض کی بنیادی علامت سینے میں جلن اور تیزابیت ہے، جس کے نتیجے میں سینے میں درد کی شکایت جنم لیتی ہے،جو اکثر حلق اور کمر تک محسوس ہوتی ہے۔عمومی طور پر درد کھانے کے بعد شروع ہوتا ہے اور جُھکنے، وزن اُٹھانے اور ذہنی و جسمانی دبائو سے شدّت اختیار کرلیتا ہے۔
بعض اوقات رات کا کھانا کھا کر فوراً لیٹ جانے سے بھی درد بڑھ جاتا ہے، البتہ اُٹھ کر بیٹھنے یا چلنے پھرنے سے اس کی شدّت کم ہوجاتی ہے۔ دیگر علامات میں سینے میں جلن، پسلیوں کے نیچے درد، جو بعض اوقات کندھوں اور کمر تک محسوس ہوتا ہے، کھانے کے ذرّات کا منہ میں آنا، کھٹی ڈکاریں، متلی، قے، کھانا نگلنے میں دشواری، کان میں درد اور سینے میں تکلیف شامل ہیں۔ خشک کھانسی اکثر رات کے وقت تنگ کرتی ہے، کیوں کہ سوتے ہوئے غذا کی نالی میں موجود غذائی اجزاء اُچھال کی وجہ سے سانس کی نالی میں داخل ہوجاتے ہیں، جو کھانسی کا باعث بنتے ہیں۔ ویسے یہ علامات اُن مریضوں میں بھی پائی جاتی ہیں، جوپتّے میں پتّھری کے شکار ہوں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معالج کے مشورے سے الٹرا سائونڈ کروالیا جائے۔
جی ای آر ڈی مرض کی تشخیص علامات کی بنیاد پر کی جا تی ہے۔عام طور پر 45سال یا اس سے کم عُمر افراد میں مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، البتہ کھانا کھانے میں دشواری، تیزی سے وزن کم ہونے، بھوک نہ لگنے، خون کی قے یا فضلے کی رنگت کالی پڑ جانے جیسی علامات ظاہر ہوں تو Barium Swallow اور Manometryٹیسٹس تجویز کیےجاتے ہیں۔اس کے علاوہ اینڈو اسکوپی، غذا کی نالی اور معدے میں زخم، رکاوٹ، تنگی اور سرطان کی تشخیص کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس مرض کی کئی پیچیدگیاں بھی ہیں، جن میں سب سے عام غذا کی نالی میں زخم بننا اور غذا کی نالی کی تنگی ہے۔
یہ تنگی خاصے عرصے تک نالی میں ورم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اگر نالی کی تنگی مزید بڑھ جائے، تو کھانا نگلنے میں شدید دشواری (Dysphagia)کا سامنا کرنا پڑتا ہے، البتہ پانی اور دیگر مائع اشیاء باآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔ واضح رہے، اگر غذا کی نالی تنگ ہو جائے یا سُکڑ جائے، تو اسے اینڈو اسکوپی کے ذریعے درست بھی کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر پیچیدگیوں میں غذا کی نالی کا سرطان، خون کی کمی، سانس کی نالی میں ورم کی وجہ سے آواز کی تبدیلی، کھانسی اور نمونیا وغیرہ شامل ہیں۔
اس مرض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مثبت طرزِ زندگی اختیار کیا جائے، وزن پر کنٹرول رہے، تمباکونوشی سے اجتناب برتیں۔ جی ای آر ڈی میں مبتلا مریض ثقیل، مرغن، تیز مرچ مسالے والے کھانے، سافٹ ڈرنکس، الکحل، چائے، کافی اور چاکلیٹس کے استعمال سے پرہیز کریں۔ زیادہ بھاری سامان اُٹھانے اور جُھکنے، خاص طور پر کھانے کے فوراً بعد لیٹنے سے گریز کیاجائے۔ بستر کا سرہانہ ہمیشہ اونچا رکھیں، تاکہ لیٹنے کی صُورت میں کھانا آسانی سے غذا کی نالی میں جاسکے۔اس کے علاوہ رات کا کھانا سو نے سے تقریباً دو یا تین گھنٹے قبل کھالیں تو بہتر ہوگا۔
بعض کیسز میں ایچ پائلوری (Helicobacter Pylor)نامی جرثوما بھی غذا کی نالی میں اُچھال کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ اس جرثومے کی وجہ سے معدے سے تیزاب زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ایچ پائلوری کے علاج کے لیے 10سے14دِن تک مخصوص ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔اِسی طرح غذا کی نالی میں غذائی اجزاء کے اُچھال، منہ میں کھٹا اور ترش پانی آنے اور تیزابیت پر قابو پانے کے لیے بھی موثر ادویہ دستیاب ہیں، جو مستند معالج کے مشورے سے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اگر مخصوص ادویہ کے استعمال سے افاقہ نہ ہو تو پھر سرجری کی جاتی ہے، جس میں غذائی نالی کے نچلے حصّے Sphincterکو Fundoplicationکے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ اور غذا کی نالی یا معدے کے سرطان کی صُورت میں بھی سرجری کی جاسکتی ہے۔ (مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور حیدرآباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں)