مرگی جسےطبّی اصطلاح میںEpilepsy کہا جاتا ہے، اعصابی نظام متاثر کرنے والا ایک موذی عارضہ ہے، جو دُنیا بَھر میں عام ہے۔ اگرچہ بعض کیسز میں یہ تکلیف دہ مرض خودبخود ختم ہوجاتا ہے، لیکن اکثریت تاعُمر اس بیماری میں مبتلا رہتی ہے۔ مرگی لاحق ہونے میں عُمر کی کوئی قید نہیں ہے۔تاہم، ایک سروے کے مطابق کثیر آمدنی والے مُمالک میں یہ بیماری معمر افراد میں عام ہے،جب کہ ترقّی یافتہ مُمالک میں زچگی کی پیچیدگیوں اور نوزائیدہ بچّوں میں انفیکشن کی وجہ سے بچّےاس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
بیماری کی یہ شرح عُمر کے ساتھ تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ بچّوں میں اس مرض کی شرح بُلند پائی جاتی ہے اور نوجوانوںمیں کم، جب کہ 65سال کی عُمرکے افرادمیں شرح مزید بڑھ جاتی ہے۔اس طرح کے مریضوں کی اکثریت صحت یاب ہوکر عام افراد کی طرح اپنی زندگی گزار سکتی ہے، بشرطیکہ مرض کی درست تشخیص ہوجائے۔واضح رہے، بروقت تشخیص اور درست علاج کی بدولت بچّوں میں یہ مرض ختم ہوجاتا ہے،جب کہ 60سے 70فی صد مریض مرگی کے دورے ختم کرنے والی ادویہ شروع کرتے ہی دوروں اور جھٹکوں سے نجات پالیتے ہیں۔
نیز، باقی مریضوں میں یہ بیماری کبھی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ بعض کیسز میں دوا چھوڑنے کے بعدبتدریج دورے ختم ہوجاتے ہیں، مگر30سے40فی صد مریضوں میں دورے ختم نہیں ہوتے،بلکہ مختلف وقفوںسے جاری رہتے ہیں اور ان کی شدّت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض مریضوں میں دورے ختم ہوجاتے ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس کی وجوہ میں غیر مؤثر ادویہ ،ادویہ شروع کرنے سے قبل دوروں کی زیادتی،ای ای جی(Electro Encephalo Graphy)میں دوروں کی نشان دہی، فیملی ہسٹری میں مرگی کا مرض اور نفسیاتی مسائل شامل ہیں۔
اس مرض میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر جس وجہ سے مرگی لاحق ہوئی ہو، اسی وجہ سے مریض لقمۂ اجل بنتے ہیں، مگر17فی صد مریض غیر متوقّع طور پربھی انتقال کرجاتے ہیں۔ غیر متوقّع موت سے مُراد یہ ہے کہ ایسی ہلاکت جس کا کوئی عینی شاہد ہو، نہ مریض کو کوئی چوٹ لگی ہو اور نہ ہی پانی میں ڈوبنے کے شواہد ملے ہوں، دورہ پڑنے سے یا بغیر دورے کے موت واقع ہوئی ہو اور پوسٹ مارٹم بھی موت کا سبب بتانے میں ناکام ہو۔
واضح رہے،سالانہ ایک ہزار میں سے 10مریض غیر متوقّع موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر دوروں پرکنٹرول نہ ہو، تو غیرمتوقّع اموات کی شرح میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔اس سےاندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیرمتوقّع اموات کا مرگی کے دوروں سے کس قدر گہرا تعلق ہے۔اس کے علاوہ غیر متوقع موت کے اسباب میں پانی میں ڈوبنا، جل جانا، پھیپھڑوں میں پانی چلے جانا، نمونیا اور خودکشی وغیرہ بھی شامل ہیں۔
مرگی لاحق ہونے کی متعدّد وجوہ کا عُمر سے گہرا تعلق ہے کہ70سے90 فی صد مریضوں میں مرگی کا پہلا دورہ بیس سال کی عُمر سے قبل پڑتا ہے۔ مرگی کو دو بنیادی گروپس میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ایک گروپ پرائمری کہلاتا ہے اور دوسرا سیکنڈری۔ پرائمری گروپ میں شامل مریضوں میں دورےکا آغاز 5سے 20سال کی عُمر کے درمیان ہوتا ہے، لیکن بعض کیسز میں یہ دورہ20 سال کی عُمر کے بعد بھی پڑ سکتا ہے۔
پہلی مرتبہ اور 20سال کی عُمر کے بعد پڑنے والا دورہ سیکنڈری کہلاتا ہے، جس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ مثلاً موروثیت، زچگی کے دوران ہونے والی پیچیدگی یا دماغ میں چوٹ یعنی برتھ اینجری،خون میں شوگر کی مقدار کم یا زیادہ، جگر یا گُردے فیل ہوجانا، سَر کی چوٹ، دماغ میں رسولی، فالج کا حملہ، دماغ کی جھلّی پر ورم (Encephalitis)، دماغ میں پیپ بَھر جانا یا دماغ کی ٹی بی۔
اس کے علاوہ بعض ادویہ بھی مرگی کا سبب بن جاتی ہیں، تو کبھی نشہ آور ادویہ ترک کرنےپر بھی دورے (Withdrawal seizures)پڑسکتے ہیں۔مرگی کےدوروں کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کو طبّی اصطلاح میںPartial Seizuresکہتے ہیں، جس میں دورہ دماغ کے ایک حصّے تک محدود رہتا ہے، جب کہ دوسری قسمGeneralized Seizuresمیں دورہ دماغ کے دونوں حصّوں کو متاثر کرتا ہے۔ دورے کی شدّت بڑھانے کے موجب بننے والے عوامل میں نیند کی کمی، جذباتی تنائو اور کھینچائو، جسمانی اور دماغی تھکن، انفیکشن اور بخار، ادویہ کی زیادتی اور الکحل کا استعمال، تیز روشنی اور ٹیلی ویژن کے انتہائی نزدیک بیٹھنا شامل ہیں۔
مرض کی تشخیص کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مریض کو پڑنے والا دورہ واقعی مرگی کا تھا بھی یا نہیں؟ اس ضمن میں اہلِ خانہ سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں، کیوں کہ دورہ پڑنے سے قبل اور دورانِ دورہ مریض اپنی حالت سے بے خبر ہوتا ہے۔ یہ جاننا بھی ازحد ضروری ہے کہ دورے کے دوران زبان دانتوں تلے تو نہیں آئی؟بول و براز توخطا نہیں ہوا اور نیچےگرجانے سے کوئی چوٹ تو نہیں لگی۔ اِسی طرح بچّوں میں بھی یہ جاننا ناگزیر ہے کہ آیا دورہ تیز بخار کی وجہ سے پڑا ہے یا مرگی سے۔یاد رکھیے، بخار کی حالت میں پڑنے والے دوروں کی وجہ Hyperpyrexia ہوتی ہے، جب کہ مرگی کے دورے بغیر بخار کے بھی پڑ سکتے ہیں۔
عموماً Febrile Convulsion یعنی بخار کی حالت میں پڑنے والے دورے 6ماہ سے پانچ سال کی عُمر تک پڑتے ہیں۔نیز،متاثرہ بچّوں میں ہر تین میں سے ایک بچّے کو بعد ازاں بخار کی وجہ سے بھی دورے پڑتے ہیں۔ گوکہ مرگی کی طرح بخار کے دورے زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی5فی صد بچّے بڑے ہوکر مرگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بخار کے دورے ختم کرنے کے لیے معالج کے مشورے سے دوا دی جائے اور ٹھنڈے پانی کی پٹیاں (Sponge Bathing) رکھی جائیں۔
بعض معالجین دورہ پڑنے سے قبل بچّوں میں احتیاطاً مقعد کے ذریعے جسم میں داخل کی جانے والی ایک مخصوص دوا (Diazepam)تجویز کرتے ہیں، جب کہ بعض ماہرینِ اطفال بخار میں پڑنے والے معمولی دوروں میں مرگی ختم کرنے والی ادویہ کےطویل عرصے تک استعمال کا مشورہ نہیں دیتے۔اس کے علاوہ INFANTILE SPASM دورے بچّوں میں اچانک پڑتے ہیں اور ان کا دورانیہ بھی مختصر ہوتا ہے۔ ان دوروں میں بچّوںکو کمر، ہاتھ، پاؤں اور گردن میں جھٹکے لگتے ہیں۔اس طرح کے کیسز میں 20فی صد بچّے انتقال کر جاتے ہیں، جب کہ 75فی صد بچّوں میں سیکھنے اور بولنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے۔نیز،پچاس فی صد سے زائد بچّے عُمر کے آئندہ حصّے میں جھٹکوں کا شکار رہتے ہیں۔
مرگی کے مرض کی تشخیص کے لیے ای ای جی ٹیسٹ اہم گردانا جاتا ہے،کیوں کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے نہ صرف مرگی اور اس کی اقسام کی تشخیص ممکن ہے، بلکہ ٹیسٹ رپورٹ کی روشنی میں درست ادویہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔ دماغ کا سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی تشخیص کے لیے تو مددگار ثابت نہیں ہوتا، البتہ ان کے ذریعے مرض لاحق ہونےکی اصل وجہ معلوم کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ بعض اوقات دماغ کی رسولی یا انفیکشن کے سبب بھی کوئی فرد مرگی کا شکار ہوجاتا ہے۔
یاد رکھیے، بیس سال کی عُمر کے بعد اگرکوئی فرد مرگی میں مبتلاہوجائے اور سرطان کا بھی شبہ ہو، تو پھرسی ٹی اسکین ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مریضوں کے سینے کا ایکس رے بھی ضروری ہے ،کیوںکہ پھیپھڑے سرطان سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔اسی طرح پی ای ٹی(Positron Emission Tomography) اور ایس پی ای سی ٹی(Single-photon emission computed tomography) ان مریضوں میں ضروری ہے، جن میں مرگی کی ادویہ مؤثر ثابت نہ ہورہی ہوں۔
گوکہ مرگی کے شدید نوعیت کے دوروں کا علاج مشکل ضرور ہے، لیکن اس ضمن میں بعض احتیاطی تدابیر کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ مرگی کے مریض کو خطرے سے بچانے کے لیے آگ، پانی، مشینری اور فرنیچر سے دُور رکھا جائے۔ دورہ ختم ہونے کے بعد مریض کو کروٹ کے بل لٹا دیا جائے اور یہ تسلّی کرلی جائے کہ سانس کی نالی میں کچھ پھنسا تو نہیں ہے اور دورے کی حالت میں مریض کے منہ میں کوئی چیز نہ ڈالی جائے۔
اگر دورے کا دورانیہ 5منٹ سے زائد ہوجائے یا ہوش میں آنے سے قبل دوبارہ بے ہوشی طاری ہوجائے، تو فوری طور پر مریض کو قریبی اسپتال لے جائیں، تاکہ بروقت طبّی امداد فراہم کی جاسکے ۔ عام طور پر مریض دورے کے بعد30سے 60منٹ تک نیم بے ہوشی کی حالت میں رہتا ہے اور اسے گھبراہٹ بھی محسوس ہوتی ہے، لہٰذا اس دوران اسے اکیلا نہ چھوڑا جائے، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ہوش و حواس میں نہ آجائے۔
جہاں تک ادویہ کے ذریعے علاج کا تعلق ہے، تو بچّوں میں دورے یا جھٹکے زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتے۔ چوں کہ بچّوں کو تیز بخار کی وجہ سے بھی دورے پڑتے ہیں، تو انہیں بخار کم کرنے والی ادویہ دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے تک تقریباً چھے ہفتے سے چھے ماہ تک دورہ کم کرنے والی ادویہ بھی باقاعدگی سے استعمال کروائی جاتی ہیں۔ واضح رہے، بڑوں میں مرگی کے دورے کم کرنے والی ادویہ کم از کم چھے ماہ سے دو سال تک تجویز کی جاتی ہیں۔ اگر ادویہ ترک کرنے پر دورے دوبارہ پڑنے لگیں، تو اس صُورت میں بعض مریض کئی برس تک اور بعض عُمر بَھر یہ ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ (مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور حیدرآباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں)