• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مری میں طوفانی برفباری سے سیاحوں کو پیش آنے والی شدید مشکلات اور جانی نقصانات کی ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان نے اسی روز مقامی انتظامیہ کی نااہلی پر ڈال دی تھی۔ اب سانحہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں ان کے بیانیے کی تصدیق کر دی ہے۔ برفباری کے طوفان نے ملکہ کوہسار کو جس اذیت ناک صورتحال سے دوچار کیا۔ مقامی لوگوں اور سیاحت کیلئے آنے والوں نے پہلے روز ہی سے بہت سے انتظامی اور تکنیکی خرابیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا جس کے نتیجے میں 22عورتیں مرد اور بچے اپنی گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے موت کی نیند سو گئے۔ حکومت نے اس معاملے کی حقیقی وجوہات جاننے اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کی تھی جس نے کمشنر راولپنڈی سمیت انتظامی محکموں کے 30سے زائد افسروں اور متعدد متاثرین کے بیانات قلم بند کئے اور اپنی رپورٹ کا مسودہ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کرنے کیلئے تیار کر لیا۔ رپورٹ میں سانحہ کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کی غفلت پر ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشگی وارننگ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا اور ضروری حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے 7اور 8جنوری کی رات صورتحال قابو سے باہر ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کو 5روز پہلے مری کے راستے بند کر دینے چاہئیں تھے لیکن اس عمل میں تین روز کی تاخیر کی گئی۔ برف ہٹانے والی ساری مشینری ایک جگہ کھڑی تھی اور اس کا عملہ غائب تھا۔ متعلقہ محکموں کے اہلکاروں نے گاڑیوں کے پھنس جانے کی اطلاعات ملنے پر ضروری مشینری مدد کیلئے بھیجنے کی بجائے اپنے فون ہی بند کر دیے۔ رپورٹ میں این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کے عدم تعاون کا ذکر بھی کیا گیا۔ ٹریفک جام ہونے سے بھی مشینیں آفت زدہ جگہوں پر نہ پہنچ سکیں۔ کمیٹی نے مستقبل میں ایسے المیوں سے بچنے کیلئے سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ مری کے ملحقہ شاہراہوں پر تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات ٹریفک کی روانی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے خلاف بڑے آپریشن کی ضرورت ہے جو شروع بھی ہو چکا ہے۔ یہ سفارش بھی کی گئی کہ مری میں کار پارکنگ نہ رکھنے والی عمارتوں، ہوٹلوں، شاپنگ پلازوں اور اپارٹمنٹس کو سیل کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ غیرقانونی تعمیرات گرانے کیلئے بھی کہا گیا ہے۔ برفباری کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا۔ آئندہ چند روز میں صورتحال پھر خراب ہو سکتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ نے مری میں شام 5بجے سے صبح 5بجے تک سیاحوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ اب روزانہ صرف 8ہزار گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہو گی اس مقصد کیلئے پولیس نے ایک جامع ٹریفک پلان بنایا ہے لیکن بعد ازخرابی بسیار۔ یہ پلان نافذ کرنے کا اصل وقت جنوری کا آغاز تھا۔ جاذب نظرقدرتی مناظر رکھنے والے ممالک سیاحوں کی جنت تصور ہوتے ہیں۔ پاکستان بھی سیاحوں کیلئے کشش رکھنے والا ایک خوش قسمت ملک ہے۔ مری کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں اندرون اور بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں ان میں ہر صوبے کے علاقے شامل ہیں۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں سیکڑوں ایسے مقامات ہیں جنہیں ترقی دے کر سیاحوں کیلئے مزید پرکشش اور آمدنی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ان علاقوں میں برف پوش پہاڑ اور وادیاں بھی شامل ہیں۔ موسم سرما ابھی جاری ہے۔ برف بھی ہر جگہ پڑ رہی ہے مگر مری کے سانحے کے بعد سیاح محتاط ہو گئے ہیں۔ مری میں بھی سیاحوں کی آمد کم ہونے لگی ہےحکومت کو چاہئے کہ موسموں کے لحاظ سے سیاحتی مقامات کو محفوظ اور زیادہ پرکشش بنانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرےاور محکمہ سیاحت کو سیاحوں کے تحفظ اور انہیں ضروری سہولتوں کی فراہمی کا ذمہ دار بنائے۔

تازہ ترین