اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ دنیا ایک عجائب گھر ہے تو مغرب والوں کو اس کے کسی اونچے مچان پر آراستہ کرنا ہوگا۔ اپنے لیے اونچے مچان کا انتخاب خود مغرب والوں نے کیا اور ہم سے پوچھا بھی نہیں۔ان کے سفید فام ہونے میں کسی کو شبہ نہیں لیکن یہ ایک الگ بحث ہے جو اگر چھڑ جائے تو بہت مزے کی ہوگی۔
تو مجھے ان کے عجیب ہونے کا خیال آج کل کے تازہ حالات کو دیکھ کر ہوا۔پہلے تو یہ سنئے کہ مجھے برطانیہ میں آباد ہوئے پورے پچاس سال ہو رہے ہیں۔اتنے بہت سے برسوں کے دوران میں نے یہاں لوگوں کو پہلی بار یہ کہتے سنا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔یہ فقرہ تو اپنی طرف صبح وشام الاپا جاتا ہے، یہ انگریزوں کو کیسے خیال ہوا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں۔ انگلستان میں یہ نعرہ لگانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی دعویٰ کرے کہ یہاں دودھ میں پانی نہیں ملایا جاتا۔
اب سنئے کیا ہوا۔ مملکت برطانیہ کی ملکہ عالیہ ایلزبتھ دوئم کے بیٹے شہزادہ اینڈریو بیٹھے بٹھائے مصیبت میں گھر گئے۔صرف اتنی سی بات تھی کہ یہاں کے کھلے ڈھلے اور بے باک معاشرے میں شہزادے نے ایک لڑکی کے ساتھ خرمستیاں کیں جب کہ لڑکی کی عمر قانون کی حد کے اندر تھی۔ شہزادے نے لڑکی پر دو مرتبہ دست درازی کی۔پھر ہوا یہ کہ لڑکی نے شور مچادیا۔اس پر عوام اور سوشل میڈیا پھٹ پڑے۔ انہوں نے نہ صرف اس خلاف قانون حرکت پر احتجاج کیا بلکہ شہزادے کا کچاچٹھا کھول کر رکھ دیا۔پتہ چلاکہ شاہی خاندان کے اس فرزند کے ایک ایسے شخص سے مراسم ہیں جو بچوں کو ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ اس شخص اور اس لڑکی کی تصویریں شائع ہونے لگیں۔ ایک تصویر میں شہزادہ لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالے نظر آتا ہے۔اب آپ اس معاشرے کی بے راہ روی کا کتنا ہی ماتم کریں، شہزادے کو بتادیا گیا کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ اس نے بھی سارے ہی قانونی حربے آزمائے،مہنگے مہنگے وکیل کئے۔ کچھ لے دے کر چھوڑ دینے کی بات چھیڑی۔مگر اس کی ایک نہ چلی۔انگریز کبھی یہ نہیں کہے گاکہ اس کو شاہی خاندان سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ شہزادے کو ملکہ نے جو القاب اور خطابات دئیے تھے وہ سب واپس ملکہ کے حوالے کردئیے گئے ہیں اور یہ کہ شہزادہ شاہی خدمات انجام نہیں دے سکے گا اور اس کو شاہی آداب کی مناسبت سے جو فوجی مرتبہ دیا گیا تھا، وہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔آخر میں دبے دبے لفظوں میں کہا گیا: شہزادہ اب عام شہری تصور کیا جائے گا۔
ادھر چھوٹے سے لاڈلے شہزادہ ہیری، یعنی لیڈی ڈیانا کے چھوٹے بیٹے نے ایک پیاری سی خوش گوار، ہنستی مسکراتی لڑکی میگن سے شادی کرلی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر لڑکی کی ماں سیاہ فام ہے۔ میگن تو نبھا لے گی مگر اس کے بچے اگر کالے نکلے تو کیا ہوگا۔ شہزادے نے اس کا حل نکال لیا۔ وہ بیوی اور بچے کو لے کر امریکہ جاکر بس گیاہے۔ شاہی خاندا ن اسے رکھے یا نکالے اس کی بلا سے۔اِدھر ملکہ کی حکمرانی اپنا ریکارڈ قائم کرنے والی ہے۔ ان کو تخت پر بیٹھے ستر سال ہونے والے ہیں۔ اب اس کی جوبلی منائی جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس شاندار تقریب میں کس کو بلایا جاتا ہے اور کس کونہیں۔یہاں ایک بات اور کہتا چلوں۔ پہلی بار اور بالکل پہلی بار یہ بات آہستہ سے کہی جارہی ہے : ہو سکتا ہے ملکہ تخت چھوڑ دیں، بادشاہت سے دست بردار ہو جائیں۔ہو سکتا ہے مگر کچھ طے نہیں۔
اب آپ اسے خوبی کہیں یا کچھ اور۔ اصول کے معاملے میں انگریز نے ایک اور کارنامہ انجام دیا ہے۔برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے ایک حماقت ہوگئی۔ کورونا کا تباہ کن ریلا آنے پر وزیر اعظم نے ملک میں کچھ سختیاں نافذ کر نے کا اعلان کیا۔ دعوتیں، پارٹیاں، خرمستیاں سب ممنوع قرار دے کر وزیر اعظم نے خود اپنی قیام گاہ کے پائیں باغ میں ستّر اسّی احباب کی پارٹی کر ڈالی۔ایسی باتیں کہیں چھپتی ہیں۔ اخباروں نے موج مستی کرنے والوں کی تصویریں چھاپ دیں۔بس غضب ہوگیا۔ ایک بار پھر اعلان ہوا کہ کوئی بشر قانون سے بالا تر نہیں۔اور پھر جو وزیر اعظم کے استعفے کا شور مچا تو اس میں خود ان کی کنزرویٹیو پارٹی کے سرکردہ ارکان بھی ہم نوا ہوگئے۔ بورس جانسن نے خود پارلیمان میں آکر اپنے قصور کا اعتراف کیااور ہم لوگوں کے بر عکس،معافی بھی مانگی۔ اب وہ سو طرح کی دلیلیں دے کر منصب چھوڑنے سے پہلو تہی کر رہے ہیں لیکن ان کے نام پر بٹہ لگنا تھا سو لگ کے رہا۔اس پر یاد آیا کہ ایک اور سابق وزیر اعظم کے نام پر ایسا بٹہ لگا ہے جس پر عوام نے اپنی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور وہ ہیں مسٹر ٹونی بلیئر۔ وہی ٹونی بلیئر جنہوں نے رات کے سناٹے میں چین سے سوئے ہوئے شہر بغداد پر پہلا گولہ پھینکا تھا۔وہی گولہ باری شروعات بن گئی مسلم دنیا کی تباہی کی۔پھر تو کیا صدام حسین، کیا حسنی مبارک اور کیا معمر قذافی، سب سیاسی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنے اور ان کے ہنستے بستے ملکوں کا وہ حال ہوا جو تاتاریوں کے حملے کے بعد بستیوں کا ہوتا تھا۔ بستی کو اچھی طرح اجاڑنے کی خاطر اس پر ہل چلوا دیا جاتا تھا۔ ان کے کھنڈروں سے لیڈر بن کر ابھرنے والے اسی ٹونی بلیئر کو پچھلے دنوں شاہی اعزاز سے نوازا گیا۔اب ملک کے لاکھوں باشندے دستاویز پر دست خط کر کے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ اعزاز واپس لیا جائے۔وہ شخص اس کا مستحق نہیں۔
اگلا ذکر مغرب سے دور آسٹریلیا کا ہے کہ جس کے معاشرے کو مغربی ہی تصور کیا جاتا ہے۔وہاں ٹینس کے عالمی مقابلے ہونے تھے جن میں شرکت کے لیے سربیا کا نووک جو کو وچ وہاں پہنچا۔ جوکو وچ کو اس وقت ٹینس کا سب سے بڑا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔وہ بڑی شان سے آسٹریلیا پہنچا تب پتہ چلا کہ اس نے کورونا کا ٹیکہ نہیں لگوایا ہے۔ حکام نے جھٹ اس کا ویزا منسوخ کردیا۔ بڑی دوڑ دھوپ کی گئی۔ جوکو وچ کے سینکڑوں مداح سڑکوں پر نکل آئے۔ مگر حکام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔اعلان ہوا کہ اسے ملک چھوڑنا پڑے گا۔
نعرے لگانے میں ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔مگر اُس روز ہم نے دیکھا،دنیا کے اتنے عظیم کھلاڑی کو ملک چھوڑنا پڑا تب نعرہ لگایاہم نے’’ کوئی بشر قانون سے بالا تر نہیں‘‘۔
معاف کیجئے، ہم نے نہیں، ہمارے لاشعور نے۔