• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیدل لاہور ہائی کورٹ آنے کی وجہ بتا دی۔

تقریب سے خطاب کے دوران لاہور ہائی کورٹ بار کی تقریب دیر سے شروع ہونے پر معذرت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تاخیر پر بے چینی میں مال روڈ پر جی او آر سے ہائی کورٹ کی جانب پیدل چلنے لگا، چہل قدمی کے بھی بہت فائدے ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور خوبصورت شہر ہے لیکن پیدل چلنے والوں کے حقوق سے متعلق بڑی تکلیف ہوئی، جس کے پاس گاڑی نہیں، فٹ پاتھ اس کا حق ہے، راستے میں بڑی رکاوٹیں تھیں، کہیں گٹر کھلے تھے، کہیں پانی جمع تھا، میں نام نہیں لینا چاہتا، ایک صاحب کا گیٹ تھا اور اس کے آگے رکاوٹیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں عوام سے نہیں ڈرنا چاہیے، مسئلے اس وقت حل ہوں گے جب عوام میں رہیں گے، یہ گاڑیوں کی فوں فاں، سائرن سے لوگوں کے کانوں پر کیا گزرتی ہے، یہ سب چیزیں عوام کے پیسے سے ہیں، پولیس کا عملہ میرے ساتھ چلنے سے بہتر ہے وہ لوگوں کو محفوظ رکھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ تک اپنی خوشی سے پیدل آیا، پیدل چلنے سے صحت بہتر رہتی ہے، گاڑیاں گھروں میں رکھنے سے آلودگی میں بھی کمی آئے گی، اعلیٰ افسران اور حکام پیدل چلیں تو صوتی آلودگی میں بھی کمی آئے گی، گاڑیوں کی آمد و رفت سے متعلق مال روڈ کی بہت بری حالت ہے، ہمیں ایک دن کار فری ڈے رکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ جائیدادوں کے اکثر تنازعات ریونیو افسران کے غلط اندراج یا بے پروائی کی وجہ سے ہوتے ہیں، دیگر ممالک میں ایسے تنازعات شاذ و نادر ہوتے ہیں، کیونکہ جائیداد کے ریکارڈ کا تقدس برقرار رکھا جاتا ہے، جائیداد کے اندراج کی ذمے داری ریاست کی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صوبے نظام درست کر دیں تو دیوانی مقدمات، ان کے جھگڑے اور جرائم میں کمی آئے گی، ہمیں بطور قانون دان مسئلے کی جڑ تک جانا چاہیئے، ہمیں دیوانی مقدمات میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، دیوانی مقدمات کا اندراج صحیح ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مقدمات میں تاخیر کی روک تھام کے لیے مقدمات کے آغاز پر چیک لسٹ بنوائی تھی، چیک لسٹ انسٹی ٹیوشن کی بنیاد پر رکھی تھی، مقدمہ کرنے والے کی شناخت کے لیے بایو میٹرک ضروری قرار دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہڑتال کی سزا سائیلین کو برداشت کرنی پڑتی ہے، جج اور عدالتی عملے کو ہڑتال سے فرق نہیں پڑتا، انہیں تو تنخواہ ملتی رہتی ہے، کسی اصولی مسئلے پر جدو جہد اور آواز بلند کرنے کے لیے ہڑتال کے علاوہ کئی اور طریقے ہیں، ان طریقوں میں خط لکھنا اور قرار داد منظور کرانا شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طریقےکی بدولت سائیلین کو تکلیف دیے بغیر با عزت طریقے سے مسئلے کی نشاندہی ہو جاتی ہے، ضرورت پڑے تو احتجاج بھی کریں، احتجاج کرنا آپ کا آئینی حق ہے، وکیل کا روز آنا مسئلہ نہیں ہوتا، اصل مسئلہ گواہان کے روز آنے کی مشکلات ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ آپ کا احتجاج کرنا آئینی حق ہے، موجودہ قوانین میں ترامیم آتی ہیں لیکن ان کا اندراج نہیں کیا جاتا، جج اور وکلاء ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں، لیکن گاڑی اسی وقت چل سکتی ہے جب دونوں پہیے ایک سائز کے ہوں۔

قومی خبریں سے مزید