پچھلے تین ہفتے غیر حاضر رہا۔ معذرت۔ وجہ ایک مسلسل بخار تھا۔ مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے۔
16/اگست بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق کی برسی کا دن ہے۔ ان کی 52 ویں برسی کے موقع پر انجمن کی پرانی عمارت کے احاطے میں مولوی عبدالحق کے مزار پر انجمن کے صدر آفتاب احمد خان اور انجمن کے معاون ادبی و نگراں انتظامی امور ڈاکٹر جاوید منظر اور اراکین انجمن نے سالہائے گزشتہ کی طرح فاتحہ خوانی کی اور پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو کی جانب سے میٹرو پولیٹن کمشنر و ڈپٹی کمشنر ایسٹ سمیع الدین صدیقی نے یہ رسم ادا کی۔ شیخ الجامعہ اردو ڈاکٹر ظفر اقبال، شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر محمد قیصر اور اساتذہ، کرام طلبا و طالبات کی کثیر تعداد، شہر کی علمی، ادبی، سماجی و ثقافتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی بھرپور شرکت کر کے فاتحہ خوانی اور گل پاشی کی۔ اس اہم دن پر ناسازیٴ طبع کے باعث ناچیز اس سعادت سے محروم رہا۔ اس کا افسوس رہے گا، مگر میری نمائندگی میرے معاون محمد زبیر صاحب نے بخوبی ادا کی۔ جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں، اس کے مطابق ایڈمنسٹریٹر کراچی ثاقب سومرو اپنی سرکاری مصروفیات کے باعث نہ آ سکے۔ انہوں نے اس کی ذمہ داری میٹروپولیٹن کمشنر، ڈپٹی کمشنر ایسٹ سمیع الدین صدیقی کو سونپ دی۔ ان کے ہمراہ ڈائریکٹر کلچرل خورشید شاہ، ڈائریکٹر میڈیا مینجمنٹ علی حسن ساجد اور دیگر اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ وہ تشریف لائے اور انہوں نے اہالیان کراچی کی جانب سے بابائے اردو کے مزار پر گل پاشی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر انجمن کے معاون ادبی و نگراں انتظامی امور ڈاکٹر جاوید منظر نے بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے انجمن کو ملنے والی گرانٹ کے بارے میں بتایا کہ سال گزشتہ میں سے 63 لاکھ روپے ابھی تک باقی ہیں اور امسال کی گرانٹ کے لئے بھی ہم منتظر ہیں اور انجمن شدید مالی بحران میں ہے۔ جناب سمیع الدین صدیقی نے کہا کہ آپ فوری رابطہ کریں۔ ہمارے لئے سب سے اہم کام یہی ہے۔ امسال کی گرانٹ کے لئے بھی ہم فوری طور پر ہر ممکن کوشش کریں گے بلکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی انجمن کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے اپنا بھرپور مالی تعاون جاری رکھے گی۔ انہوں نے ڈاکٹر جاوید منظر سے کہا کہ وہ جلد از جلد ان سے ملاقات کر لیں۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سمیع الدین صدیقی نے کہا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو زبان، نثر، تحقیق، خاکہ نگاری اور مکتوب نگاری کے حوالے سے بڑی شخصیت تھے۔ بابائے اردو کے لگائے ہوئے پودے وفاقی جامعہ اردو اور انجمن ترقی اردو پاکستان اب تناور درخت بن گئے ہیں۔ ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے انجمن ترقی اردو کو ملنے والی سالانہ امداد بروقت ادا کر دی جائے گی اور بلدیاتی امور سے متعلق انجمن کے مختلف مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ اس سے قبل بابائے اردو کے مزار پر جلسے سے صدر انجمن آفتاب احمد خان، شیخ الجامعہ اردو پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر جاوید منظر نے خطاب کیا۔ آفتاب احمد خان صدر انجمن نے بابائے اردو کی زندگی اور کارناموں کا احاطہ کیا۔ شیخ الجامعہ اردو ڈاکٹر ظفر اقبال نے بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ناچیز کی انجمن سے وابستگی کے حوالے سے کلمہ خیر کہا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اب دیگر مخلص لوگ بھی آگے آئیں اور انجمن اور اردو زبان کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار ادا کریں۔
فرمان فتح پوری مرحوم
اگلے ہی روز17/اگست 2013ء بروز ہفتہ صبح دس بجے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تعزیتی اجلاس انجمن کے دفتر گلشن اقبال میں منعقد ہوا۔ اس قحط الرجال میں ان کا دم بڑا غنیمت تھا۔ اسم بامسمیٰ تھے۔ یقیناً ان لوگوں میں سے تھے جن کی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی (اور کرداری) فضیلتیں کیا کیا بیان کروں۔ وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ بیک وقت کئی جہتوں میں مثالی کارنامے انجام دیئے۔ ان کی یادوں کے چراغ روشن رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔
لیکن ان کے افکار و خیالات سے تمام زندگی استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ میں بد نصیب بوجہ بیماری اس تعزیتی جلسے میں شریک نہ ہو سکا کہ عظمیٰ اور ابرار کے سروں پر ہاتھ رکھتا، کچھ دلاسہ دیتا۔ اولاد کے معاملے میں بھی ڈاکٹر فرمان بڑے خوش نصیب ہیں۔ میں اکثر یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی جیسی سعادت مند اور لائق اولاد تمام والدین کو عطا فرمائے۔
علوم و فنون میں سب سے اہم شعبہ علم و ادب ہے۔ اس شعبے میں زبان کا جو گراں قدر کردار ہے وہ تحقیق و تنقید ہے۔ آج کے عہد کے اہم دانشور و اہل علم اور تقریب کے مقررین تعزیتی جلسے میں شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اس ذی علم شخصیت کے تنقیدی کام کو بہ نظر غائر دیکھا۔ نقادانِ ادب نے ڈاکٹر فرمان کے علمی نچوڑ اور ان کے اثرات کا بڑی گہری توجہ سے جائزہ لیا اور ان کے فاضلانہ مطالعے کی وسعت اور پنہائی بہت وسیع و عریض ہے۔ جلسے میں جامعات کے طالب علموں کی کثیر تعداد موجود تھی جو اپنے اندر طالب علمانہ ذوق و شوق اور تنقیدی شعور بھی رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ گفتگو بہت مفید اور سودمند رہی۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے لئے تعزیتی اجلاس کا انعقاد سب سے پہلے انجمن نے کیا۔ صدر جلسہ آفتاب احمد خان نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت و فن پر اپنی تقریر میں بڑی کام کی باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایسے قد آور نقاد تھے جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اگر وہ زندہ رہتے تو یقیناً اردو ادب مزید وقیع اور ثروت مند ہوتا۔ شیخ الجامعہ اردو ڈاکٹر ظفر اقبال نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یادیں صرف ایک دن کے منانے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان کی یادیں اور کام ہمارے اندر ایک تحریک پیدا کرتے ہیں۔ شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ وہ خالص دانشورانہ لہجے کے آدمی تھے۔ ان کے انتقال سے اردو ادب یتیم ہو گیا، جب کہ جامعہ کراچی بھی یتیم ہو گئی۔ (خدانخواستہ)۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی ”نگار پاکستان“ کو گود لے گی اور وہ باقاعدگی سے ہر ماہ شائع ہو گا اور ”نگار“ کو کبھی مالی دشواری کا سامنا نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کہہ رہی تھیں کہ ڈاکٹر فرمان نئی بات اور نئی فکر کا اظہار کرتے تھے۔ وہ ہمارے ادب کے ناقابل فراموش کردار ہیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ ان کی ذات ہمارے لئے تہذیبی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی کتابیں اور ان کی محققانہ تحریریں ہماری رہنما ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے ان کی چیدہ چیدہ اہم کتابوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو علامہ نیاز کے بعد ”نگار“ سے بے پناہ عشق تھا۔
انہوں نے47 برس تک ”نگار“ کے34 خاص یادگار نمبرز بھی نکالے۔ ڈاکٹر سید جاوید اقبال نے بتایا کہ ڈاکٹر فرمان نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔ تحقیق کے میدان میں انہوں نے بے پناہ کام کیا۔ ڈاکٹر عظمیٰ فرمان (صاحبزادی) اور سید ابرار علی (صاحبزادے) نے انجمن ترقی اردو کا شکریہ ادا کیا اور نہایت آبدیدہ لہجے میں اپنے والد کی علمیت، شفقت اور محبت کا ذکر کیا۔ وسیم الدین صدر شعبہ تعلقات عامہ جامعہ اردو نے ڈاکٹر فرمان کی نعت پیش کی اور انجمن کے معاون ادبی و انتظامی امور ڈاکٹر جاوید منظر نے تعزیتی اجلاس کی نظامت کی اور منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔